مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
روز سورج ڈھلتے ہوئے اپنے دن بھر کے سفر کے ساتھ نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی زندگی بھر کا سفر بھی غروب کرجاتا ہے اور پیچھے بس، اِک ناتمام اُداسی رہ جاتی ہے۔ 26؍اپریل 2021ء کا سورج کیا ڈوبا، ہمارا دل بھی غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔ اُس روز صرف دن کا اختتام نہیں ہوا، میرے پیارے نانا جان، بابا ریاض کی زندگی کا سفر بھی تمام ہوا اور اُن کے انتقال کے بعد ہی ہمیں درحقیقت جدائی کے مفہوم سے آشنائی ہوئی کہ نانا جان سے ملنے والی شفقت و محبّت، چاہت و خلوص کا کوئی نعم البدل ہی نہیں، وہ ہمارے خاندان پر ایک گھنے سائے کی مانند تھے۔
ہر ایک کو اپنی محبّت و شفقت کی گھنی چھائوں میں چُھپائے رکھتے۔ اُن ہی کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا۔ ہر معاملے، مسئلے پر خاندان، برادری اور آس پڑوس کے لوگ اُن کے فیصلے پرسرِتسلیم خم کیا کرتے۔ وہ اپنی حکمت و دانائی سے کسی بھی جھگڑے یا مسئلے کو اس انداز سے حل کردیا کرتے کہ فریقین بحث مباحثہ چھوڑ کر اُن کی بات ماننے پر آمادہ ہوجاتے۔ گویا اُن کا وجود خاندان بھر راحت و میں سکون کا باعث تھا۔
میرے پیارے نانا، بابا ریاض 1948ء کو پیدا ہوئے۔ گائوں کے خالص تہذیبی و روایتی ماحول میں پرورش پائی۔ وہ نہ صرف جسمانی طور پر مضبوط قد کاٹھ کے مالک تھے، بلکہ اعلیٰ کردارکے حامل اور بہت اصول پرست انسان تھے۔ اُس وقت ہمارے گائوں میں تعلیم کا اس قدر رواج نہ تھا، لوگ صرف قرآنِ پاک پڑھ لینا ہی کافی سمجھتے تھے، لیکن انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ مڈل تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی، پھر پولیس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے، لیکن اپنی حق گوئی اور رحم دلانہ طبیعت کے باعث تھوڑے ہی عرصے بعد اس محکمے سے استعفیٰ دے کر حکمت کی طرف آگئے۔
ربّ تعالیٰ نے انہیں ایک پڑھی لکھی اور انہی کی طرح اصول پسند ساتھی سے نوازا۔ ہماری نانی دولت بی بی نے بھی اُن کا خُوب ساتھ نبھایا اور انھیں ہمیشہ گھر کی فکروں سے آزاد رکھا۔ نانا جان اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کی بے حدلاڈ اٹھاتے تھے، سب انہیں ’’ابّا‘‘ کہا کرتے اور وہ ہمارے لیے سراپا محبّت تھے۔ مجھ سے سیاسیات پر گفتگو کے علاوہ کرنٹ افیئرز پہ گھنٹوں بات چیت کرتے، مدلّل گفتگو کا فن مَیں نے اُن ہی سے سیکھا۔ اُن کی وہ سب باتیں، نشستیں اگرچہ ہمیں بہت کم وقت کے لیے میسّر آئیں، لیکن ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
اُن کی محبّت کا وہ خُوب صُورت انداز،ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے کہ جب ہم اُن سے ملنے جاتے، تو خاندان کے بڑے ہونے کے باوجود اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوتے اور سرچوم کر دُعا دیتے،پھر اپنے پاس ہی بٹھالیتے۔ کافی دیر تک گپ شپ چلتی، پھر جتنے دن ہم گائوں میں گزارتے، وہ روز ہماری پسند کا کھانا پکواتے۔ بار بار پوچھتے کہ کیا کھانا ہے۔ اگر مَیں کچھ دیر خاموش ہو جاتی، تو پریشان ہو تے اور مُسکرا کر پوچھتے کہ’’ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں!‘‘ اُن کی محبّت کا ہر انداز، اُن کی ہر نصیحت میری زندگی میں مشعلِ راہ کی مانند ہے۔
گرچہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ تھے، نہ کوئی بڑے سیاسی عہدے دار، نہ زمینوں، حویلیوں کے وارث، لیکن اپنی اصول پسند طبیعت، حق گوئی اور شرافت کے سبب آج تک گائوں کے لوگوںاور دوست احباب کے دِلوں میں زندہ ہیں، جب کہ ان کے جانے کے بعد ہماری زندگیوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ کوئی نہیں بَھرسکتا۔ اللہ پاک میرے نانا، بابا ریاض کی تمام منزلیں آسان فرمائے اور اُنہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔ (عروج عباس، کورنگی، کراچی)
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭ جب شہنشاہِ فٹ بال کی ہڈی ٹوٹی (غلام اللہ چوہان، گزدر آباد، کراچی)۔ ٭موت مجھ سے چھے انچ کے فاصلے پر تھی (بشیر احمد بھٹی، بہاول پور)۔ ٭انسانی ذہن کے سربستہ راز(ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)۔ ٭ناقابلِ فراموش (سیّد ذوالفقار حیدر، گلستانِ جوہر، کراچی)۔ ٭آڑ کے پار (ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)۔ ٭میری زندگی کے ناقابلِ فراموش مناظر(مصباح طیّب، سرگودھا)۔ ٭دو طوطوں کی آپ بیتی (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭برصغیر پاک و ہند کا عظیم شاعر، ساحر لدھیانوی (بابر سلیم خان)۔ ٭Elly Brownلاوارث نہیں تھا (حسیب اعجاز عاشر)۔٭جب سائنس ہم پر فرض ہوا کرتی تھی (عثمان عاشق)۔