ڈاکٹر معین نواز، لاہور
اللہ تعالیٰ نے ہر موسم کی خُوب صُورتی میں اضافے کے لیے ایسی رنگ برنگی چیزیں پیدا کی ہیں، جو اُس رُت کی دل کَشی میں بڑھاوے کے علاوہ اُس کی پہچان بھی بن جاتی ہیں اور ہم ان موسموں کی غیر موجودگی میں اُن سے جُڑی اشیا کو محض یاد کر کے ہی ان کا مزہ لے لیتے ہیں۔ موسمِ برسات یاد آئے، تو تھالوں میں سجے، سُنہری چُغے پہنے سڈول چونسا آم خود بخود ہی تصوّر میں دَر آتے ہیں اور منہ میں اِک مٹھاس سی گُھل جاتی ہے۔
اسی طرح پکوڑے اور بیسنی روٹی بھی برسات کی رُت کے مقبول پکوان ہیں۔ سردیوں کا ذکر آئے، تو خُشک میوہ جات، مولی والے پراٹھوں اور گاجر کے حلوے کی یاد آ جاتی ہے۔ خیر، یہ سب تو عام پکوان ہیں، جب کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں، جو بے حد مقبول ہونے کے باوجود شاذو نادر ہی تیار کی جاتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے لیے درکار محنت آج کی ماں کے بس کی بات نہیں رہی۔
ہماری مرحومہ و مغفورہ والدہ محترمہ موسمِ سرما میں کئی مرتبہ ایک ایسی ہی غیر معمولی سوغات کا اہتمام کیا کرتی تھیں، جسے ’’سَمنک کا حلوا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ڈِش کی تیاری کا آغاز گندم کی دُھلائی سے ہوتا۔ گندم کو اچّھی طرح دھونے کے بعد اس میں موجود مٹّی اور کنکر وغیرہ نکالے جاتے۔ پھر اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر کُھلی فضا میں سائے دار جگہ پر رکھ دیا جاتا۔اس سے اگلا مرحلہ خاصادل چسپ ہوتا اور ہم بچّے اس کا بے چینی سے انتظار کرتے۔تب یوں ہوتا کہ ایک، دو روز میں گندم نہ صرف پُھولنا شروع ہو جاتی بلکہ کپڑے کی تھیلی میں سے سبز رنگ کے ریشے بھی نکلنے لگتے۔
معیّنہ وقت،جس کا علم صرف امّی ہی کو تھا، پورا ہونے کے بعد تھیلی کھول دی جاتی۔ تھیلی کُھلتے ہی گندم کے دانے باہر نکل آتے، جو پُھوٹنے کے بعد ایک دوسرے سے چمٹے ہوتے۔ اگلے مرحلے میں دانوں کو الگ الگ کر کے دُھوپ میں رکھی چارپائی پر پھیلے کپڑے پر بکھیر دیا جاتا اور شام کے وقت اوس سے بچانے کے لیے چارپائی کو برآمدے میں منتقل کر دیا جاتا۔ یہ سلسلہ دو سے تین روز تک جاری رہتا اور جب گندم کے دانے اچّھی طرح خُشک ہو جاتے، تو انہیں ہاون دستے کی مدد سے پِیسا جاتا۔ تب گھروں میں گرائنڈرز نہیں ہوتے تھے اور اگر ہوتے بھی، تو اُن سے مطلوبہ پسائی نہیں ہو سکتی تھی۔
اس پسی ہوئی گندم کو ’’سَمنک‘‘ کہا جاتا تھا، جو سوہن حلوے کا جزوِ لاینفک ہے۔ پھر سم نک کو ہلکی آنچ پر خاصی دیر تک بُھونا جاتا اور پھر اس میں خالص دودھ اور چینی شامل کی جاتی۔ بُھنی ہوئی گندم کا یہ آمیزہ جب ٹھیک ٹھاک گاڑھا ہو جاتا، تو اسے ایک تھال میں ڈال کر پھیلا دیا جاتا اور پھر ٹھنڈا اور سخت ہونے پر اس پر کَٹے ہوئے پستے اور اخروٹ کی ڈریسنگ کی جاتی۔ اس کے بعد سَمنک سے بنا حلوا کھانے کے لیے پیش کیا جاتا۔
یہ حلوا اس قدرذائقےدار اور لذیذ ہوتا کہ اِن دنوں بازار میں ملنے والا سوہن حلوااس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ اس حلوے کی تیاری میں بعض اوقات دو دن بھی لگ جاتے، جب کہ آج کل کی مائیں محض حلوے کی تیاری کے لیے اس قدر مشقّت اُٹھانے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتیں اورشاید ایسی ہی مائوں کی کم یابی کے سبب آج وطنِ عزیز میں ایسے سپوتوں کا بھی کال پڑ گیا ہے کہ جو خلوصِ نیّت سے اس پاک سرزمین کی باگ ڈور سنبھالتے اور اسے ترقی کی منازل کی طرف گام زن کرتے۔
ہیضے یا قے کی صورت میں، عموماً خون میں ضروری نمکیات کی شرح کم ہو جاتی ہے، تو چاول اُبالنے کے بعد بچ جانے والا نمکین پانی(پِیچ) پینے سے جسم میں نمکیات کی مقدار کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ ناٹنگھم یونی ورسٹی کے ماہرین کے مطابق چاول میں کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں، جو جسم میں داخل ہو کر شوگر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر یہ معدے میں جذب ہونے والا میکنزم بن جاتے ہیں۔
ان سے پانی اور نمک کو ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے، جب کہ یہ مشروب توانائی بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا، ہیضے یا قے کی صورت میں چاولوں کو نمک ملے پانی میں اُبالنے کے بعد پانی کو کسی برتن میں الگ کر کے ٹھنڈا کریں اور دن بَھر پیتے رہیں۔ (صبیحہ طاہر، سرگودھا)