بابائے قوم، قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت اور نئی نسل کو اُن کی حیات و خدمات سے روشناس کروانے کے لیے مُلک میں سرکاری و نجی سطح پر کئی ادارے سرگرمِ عمل ہیں، جن میں ایک نمایاں نام’’ قائدِ اعظم اکادمی‘‘ کا ہے۔ اگر ہم کراچی میں نمائش چورنگی سے گرومندر کی طرف جائیں، تو سیلانی کے دفاتر سے کچھ آگے، مرکزی شاہ راہ پر بائیں طرف ،ایک بنگلا نُما عمارت پر ’’قائدِ اعظم اکادمی ‘‘کا بورڈ آویزاں نظر آئے گا۔
یہ اکادمی، ذوالفقار علی بھٹّو کے دورِ حکومت میں، جنوری 1976ء میں وزارتِ تعلیم کی ایک قرارداد کے تحت قائم کی گئی تھی۔بعدازاں، اس کا انتظامی کنٹرول کیبنٹ ڈویژن اور وزارتِ ثقافت کے پاس رہا۔ تقریباً38 سال بعد 13جون 2014ء میں وزارتِ اطلاعات و نشریات و قومی وَرثہ کے ایک نوٹی فکیشن کے تحت قائدِ اعظم اکادمی کو سب آرڈینٹ آفس قرار دے دیا گیا اور اس کے انتظامی امور کی نگرانی قومی تاریخ اور ادبی وَرثہ ڈویژن کے سپرد کر دی گئی۔ آج کل یہ ادارہ”وزارتِ قومی وَرثہ اور ثقافت ڈویژن“ (Ministry of National Heritage and Culture Division) کے زیرِ انتظام ہے۔
قائدِ اعظم اکادمی نے کراچی کے علاقے، پاکستان سِول سیکرٹریٹ کے بیرکس میں واقع دو کمروں سے کام کا آغاز کیا۔ 1979ء میں مزارِ قائد کے بالمقابل، ایم اے جناح روڈ پر وہ عمارت خریدی گئی، جس میں اب اِس کے دفاتر قائم ہیں۔ یہ عمارت، اکادمی نے اپنے فنڈز میں سے پس انداز کی گئی رقم سے خریدی تھی۔ یاد رہے، اسلام آباد میں ڈاکٹر زوّار حسین زیدی کی سربراہی میں’’ قائدِ اعظم پیپر ونگ پراجیکٹ‘‘ شروع کیا گیا تھا، جسے اُن کے انتقال کے بعد 2015ء میں قائدِ اعظم اکادمی میں ضم کردیا گیا اور نیشنل آرکائیوز کے دو کمروں میں قائم وہ دفتر، اب قائدِ اعظم کادمی، اسلام آباد سب آفس کے طور پر کام کر رہا ہے۔
اگر انتظامی ڈھانچے کی بات کریں، تو ڈائریکٹر آف ریسرچ اس کے انتظامی امور کا بھی سربراہ ہوتا ہے، جسے محقّقین سمیت دیگر عملے کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔2016ء میں اکادمی کے انتظامی اور تحقیقی امور کی نگرانی کے لیے ایک کُل وقتی ڈائریکٹر مقرّر کیا گیا۔ اکادمی کے پہلے ڈائریکٹر، ممتاز محقّق، پروفیسر شریف المجاہد تھے، جو 1989ء میں ریٹائر ہوئے۔ اُن کے بعد ڈاکٹر وحید احمد، خواجہ رضی حیدر، ڈاکٹر محمّد علی صدیقی، ڈاکٹر یعقوب مغل کے علاوہ متعدّد قائم مقام ڈائریکٹرز تعیّنات ہوتے رہے ہیں۔
صدر ضیاء الحق اور ڈاکٹر عارف علوی نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے اِس ادارے کا دَورہ کیا، جب کہ کئی وزراء اور دیگر اہم شخصیات بھی یہاں آچکی ہیں۔ اِس ادارے نے بانیٔ پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے متعلق کتب کی اشاعت کے ساتھ بڑے پیمانے پر تقریبات کے انعقاد کے ذریعے اپنے قیام کے مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی ہے، تاہم اِن دنوں یہ کسی اجڑے دیار کا منظر پیش کرتا ہے۔
مشفق خواجہ سے منسوب قول کے مطابق’’ کراچی میں قائدِ اعظم کے دو مزار ہیں اور دونوں ہی آمنے سامنے ہیں۔‘‘اُنھوں نے دوسرا مزار، اِس اکادمی کو قرار دیا تھا اور حالات کی مناسبت سے درست ہی کہا تھا۔ ادارے میں اِن دنوں عملے کی نصف سے زاید اسامیاں خالی ہیں، کوئی کُل وقتی ڈائریکٹر موجود نہیں، اکادمی کا اصل کام ریسرچ کا ہے، مگر کوئی تحقیق ہو رہی ہے اور نہ ہی نئی کتابیں شایع ہو رہی ہیں۔
اکادمی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہے۔بجلی چلی جائے تو اندھیرے میں بیٹھنا پڑتا ہے کہ20کے -وی کا جنریٹر بیٹری نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرتا۔ اِن دنوں ریسرچ آفیسر، زاہد حسین ابڑو، اکادمی کے نگران ڈائریکٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اُنھوں نے عملے کی کمی کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ’’ اِس وقت قائدِ اعظم اکادمی کا اسٹاف تین یو ڈی سیز، ایک ایل ڈی سی، دو ڈرائیورز، پانچ میسنجرز اور چوکیدار پر مشتمل ہے۔ کُل وقتی ڈائریکٹر سمیت چار ریسرچ فیلوز، دو سینیئر ریسرچ فیلوز، ایک اکاؤنٹنٹ، لائبریرین اور دو اسسٹنٹس کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، جب کہ ان کلیدی اور اہم اسامیوں کے علاوہ نچلے درجے کی بھی کئی اسامیوں پر عملہ موجود نہیں ہے۔
تقرّریوں میں ایک بڑی رکاوٹ ملازمتوں کے لیے رُولز اینڈ ریگیولیشنز کی عدم موجودگی ہے، ہم نے 2018ء میں سروس رُولز تیار کرکے متعلقہ وزارت کو ارسال کردئیے تھے، تاہم اس سمت ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی، شاید اِس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اِس طرح کے معاملات کا کئی وزارتوں سے تعلق ہوتا ہے اور سب کی منظوری کے بعد ہی قواعد و ضوابط کی منظوری ہوتی ہے، ممکن ہے، اِسی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہو۔ تاہم، عملے کی کمی سے کام بہت متاثرہو رہے ہیں۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔نصف صدی قبل قائم ہونے والی اکادمی میں مستقل ڈائریکٹرز تو صرف تین، چار ہی آئے، زیادہ تر افراد عارضی بنیادوں پر کام کرتے رہے، مگر 2019ء سے تو یہ انتظام بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی کسی کو سال، دو سال کے لیے اِس عُہدے پر بِٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اِس اسامی کی اہمیت کے پیشِ نظر اس پر کسی کا فوری اور مستقل تقرّر ضروری ہے۔‘‘’’ اکادمی کی اب تک کی کارکردگی کیا ہے اور اِن دنوں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں؟‘‘ اِس سوال پر زاہد حسین ابڑو نے بتایا کہ’’ اکادمی کا اصل مقصد قائدِ اعظم ؒ کے افکار و نظریات کا فروغ ہے، تو اِس مقصد کے لیے سیمینارز اور مشاعروں کے ساتھ خصوصی قومی ایّام پر تقریبات کا بھی انعقاد کرتے ہیں۔
بابائے قوم کے گزشتہ یومِ پیدائش کے موقعے پر اکیڈمی کی تاریخ میں پہلی بار سرسیّد کالج میں بڑے پیمانے پر کوئز پروگرام ہوا، جس میں طلبا و طالبات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ادارے کی جانب سے اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور فارسی میں73 کتب شایع کی جا چُکی ہیں۔ کئی کتب کے تو متعدّد ایڈیشنز شایع ہوئے ہیں۔ان میں ڈاکٹر وحید احمد کی مرتب کردہ کتاب’’ nations voice‘‘ بھی شامل ہے، جو سات جِلدوں پر مشتمل ہے۔
اِس کتاب میں بانیٔ پاکستان کی 1935ء سے 1948ء تک کی تقاریر مکمل صحت اورحوالوں کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔ ساتویں جِلد ساڑھے چھے ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ہم نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ کچھ عرصے سے قائدِ اعظم کے مزار پر مستقل طور پر اکادمی کی کتب کا اسٹال لگانا شروع کیا ہے اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ عوام کتب میں بہت دِل چسپی لے رہے ہیں۔
اِس طرح جہاں عوام تک بابائے قوم کا پیغام پہنچ رہا ہے، وہیں ،کتب کی فروخت سے اکادمی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘ہم نے بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کی طرف اُن کی توجّہ مبذول کروائی تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ہمیں اخراجات کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا ہم بجلی، پانی، روشنی اور صفائی ستھرائی وغیرہ سے متعلق مسائل حل کرنے کے لیے متعلقہ وزارت کو رپورٹس بھجوا رہے ہیں۔
اُمید تو یہی ہے کہ منسٹری کے ڈپٹی سیکریٹری ضروری اخراجات کی اجازت دے دیں گے کہ وہ ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔‘‘مستقبل کے منصوبوں کے ضمن میں اُن کا کہنا تھاکہ’’ ہماری خواہش ہے کہ گرین لائن اور پیپلز بسز وغیرہ میں قائدِ اعظمؒ کے الیکٹرانک میسیجر چلائے جائیں، جب کہ ہم پارکس اور شاپنگ مالز میں بڑی بڑی اسکرینز نصب کرکے بھی بانیٔ پاکستان کی تعلیمات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ تاہم، اِس طرح کے منصوبوں کے لیے ہمیں مختلف اسپانسرز کے ساتھ، کے الیکٹرک اور سٹی گورنمنٹ وغیرہ کی معاونت بھی درکار ہوگی۔‘‘
قائدِ اعظم اکادمی میں 25 ہزار سے زاید حوالہ جاتی کتب کا ذخیرہ موجود ہے، جن سے استفادے کے لیے طلبہ اور ریسرچ اسکالرز یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔عبدالماجد فاروقی بنیادی طور پر یو ڈی سی کی پوسٹ پر تعیّنات ہیں، مگر وہ گزشتہ کئی برسوں سے اِس لائبریری کو بھی سنبھال رہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرّک ہیں اور اس عوامی فورم کے ذریعے عام افراد تک اکادمی کی سرگرمیاں پہنچا رہے ہیں۔ جب ہم لائبریری میں داخل ہوئے تو وہاں پُرسکون ماحول دیکھنے کو ملا، ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی اور کئی طلبہ مطالعے میں مگن تھے۔
عبدالماجد فاروقی نے کتب خانے سے متعلق بتایا کہ’’ چند سو کتب سے اِس لائبریری کا آغاز ہوا تھا اور آج اِسے حوالہ جاتی کتب خانوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔یہاں تحریکِ پاکستان، قائدِ اعظم اور اکابرینِ تحریکِ آزادی سے متعلق دوسرے ممالک میں شایع ہونے والی کتب بھی موجود ہیں۔’’ Collected words of Mahatima Gandi‘‘ کے ایک سو والیومز ہیں، جن میں برّصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں گاندھی جی کے کردار سے متعلق تمام دستاویزات موجود ہیں۔
قائدِ اعظم پیپرز کی 1354 فائلز، آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ کی624 جلدیں، شمس الحسن کلیکشن کی 52 جلدیں، مختلف انسائیکلوپیڈیاز کی سیکڑوں جِلدیں، سلیکٹڈ ورکس آف جواہر لال نہرو کی15جلدیں، سردار پٹیل کارسپانڈنس کی دس جلدیں، انڈین لیجسلیٹیو اسمبلی ڈیبیٹس ( 1921ء تا 1947ء) سائمن کمیشن رپورٹ کی17 جلدیں، انڈین ہسٹاریکل ریسرچز کی56 جلدیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مکمل ریکارڈ سمیت سیکڑوں تاریخی اور نایاب کتب یہاں ریسرچرز کے لیے دست یاب ہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں تقسیمِ ہند سے پہلے کے متعدّد اخبارات کی مائکرو فلمز بھی موجود ہیں۔ ‘‘ اُنھوں نے بتایا کہ’’ لائبریری سے بہت سے طلبہ سی ایس ایس کی تیاری یا تحقیقی مقالات لکھنے کے لیے رجوع کرتے ہیں، جنھیں ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاہم طلبہ اور محقّقین کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے، جن کے حل سے وہ کتب خانے سے بہتر طور پر استفادہ کرسکیں گے۔
لائبریرین کی اسامی پُر نہ کیے جانے کے سبب بھی کئی مسائل درپیش ہیں، جب کہ طلبہ کی جانب سے نئی کتب کی بھی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔‘‘اِس موقعے پر وہاں مطالعے میں مصروف کچھ طلبہ سے بھی ہماری بات چیت ہوئی۔عبدالقدیر کا تعلق لاڑکانہ سے ہے اور وہ وہاں مقابلے کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں آتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’یہاں کا ماحول بہت پُرسکون ہے، ماجد صاحب تعاون بھی بہت کرتے ہیں، تاہم کچھ مسائل بھی ہیں۔ایک بڑا مسئلہ روشنی کا ناکافی ہونا ہے، مطالعہ گاہ میں اندھیرا سا چھایا رہتا ہے۔ پھر یہ کہ پینے کا پانی بھی دست یاب نہیں ہے۔
صرف ایک ائیر کنڈیشنز ہے۔ یہاں ٹائمنگ کا بھی مسئلہ ہے کہ یہ عملے کی کمی کی وجہ سے صبح 8 سے شام 4 بجے تک کھلتی ہے، جب کہ طلبہ تو شام ہی کو فارغ ہوتے ہیں۔لیاقت میموریل لائبریری جائیں، تو وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زاید کتابیں ہیں، مگر یہاں نئی کتابیں نظر نہیں آتیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ قائدِ اعظمؒ سے منسوب اِس لائبریری کو اُن کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔‘‘ قریب ہی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس مطالعے میں محو تھے۔
اُنھوں نے یہاں آنے کا سبب یوں بتایا’’مَیں وفاقی اردو یونی ورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کر رہا ہوں اور یہاں پولیٹیکل سائنس سے متعلق بہت سی کتب مل جاتی ہیں، پھر یہ کہ مَیں قریبی علاقے، سولجر بازار کے ایک ہاسٹل میں رہتا ہوں، جہاں طلبہ کے بہت سے ہاسٹلز ہیں۔وہ بھی مطالعے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ہمیں یہاں بہت سی سہولتیں تو میسّر ہیں، مگر یہاں کمپیوٹر لیب یا انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، کم از کم انٹرنیٹ تو ہونا ہی چاہیے تاکہ ہم اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرسکیں۔‘‘