پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے کاروباری اور پھر سیاسی خاندان کو اِس حقیقت کا ادراک بہت پہلے ہی ہوچُکا تھا کہ وزیرِ اعظم ہائوس کا رستہ، پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ہی سے گزر کر طے ہوتا ہے۔اور پھر اُس خاندان کے فہم اور سیاسی سوجھ بوجھ نے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو اِس رستے کے ذریعے واقعتاً وزیرِ اعظم ہائوس تک پہنچا بھی دیا۔ میاں نواز شریف نے تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا، تو شہباز شریف دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔اب مریم نواز نے بھی والد اور چچا کی تقلید کرتے ہوئے اپنے پارلیمانی سفر کا آغاز پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اِس سے قبل مریم نواز کبھی پنجاب یا قومی اسمبلی کی رُکن نہیں رہیں۔
وہ 2024ء کے انتخابات میں پہلی بار پارلیمان کا حصّہ بنی ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ کلثوم نواز نے، جو تین مرتبہ خاتونِ اوّل اور مسلم لیگ (نون) کی صدر بھی رہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے شوہر کو نااہل کیے جانے کے بعد لاہور کے حلقے این اے-120 سے الیکشن لڑا تھا اور60 ہزار ووٹ لے کر کام یابی بھی حاصل کی تھی، لیکن شومئی قسمت کہ وہ قومی اسمبلی میں نہ جاسکیں، کیوں کہ اُنھیں علالت کے باعث علاج کے لیے لندن جانا پڑا، جہاں کچھ عرصے بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔
چوں کہ ان کے دونوں صاحب زادے طویل عرصے سے برطانیہ میں سکونت پذیر ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں اور اُن کی سیاست میں بھی کوئی خاص دل چسی نہیں، اِس لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے اس صُورتِ حال کے پیشِ نظر اپنی صاحب زادی، مریم نواز کا سیاست میں فعال کردار اور دل چسپی دیکھتے ہوئے اُنھیں اپنا سیاسی جانشین بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور غیر محسوس طریقے سے اُن کی ’’سیاسی گرومنگ‘‘ جاری رہی، تاہم منظرِ عام پر آنے والا مریم نواز کا سیاسی سفر2013 ء کے عام انتخابات سے قبل ہی اُس وقت شروع ہوگیا تھا، جب2013 ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف نے این اے-120 سے الیکشن لڑا اور مریم نواز نے انتہائی جانفشانی سے اُن کی مہم چلائی۔
مریم نواز کی سیاست میں آمد اور عروج کے حوالے سے شناسائی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے سیاست میں دل چسپی کا پہلا باضابطہ اظہار1999 ء میں کیا تھا، جب اُن کے والد اور خاندان کے دیگر مَردوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان اسیروں کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے میں مریم نواز پیش پیش رہیں۔ وہ خود تو سامنے نہیں آتی تھیں، لیکن بعض مرتبہ بیگم کلثوم نواز سے بھی زیادہ متحرّک ہوتی تھیں۔
مریم نواز کو یہ’’قدرے سیاسی‘‘ کردار حالات کی وجہ سے نبھانا پڑا، تاہم جلا وطنی کے برسوں اور مُلک بدری ختم ہونے پر پاکستان آنے کے بعد بھی مریم نواز نے عملی سیاست سے خود کو دُور رکھا۔ یہ2011 ء کے بعد کی بات ہے، جب عمران خان اور ان کی جماعت نے جلسے جلوسوں کے ذریعے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے استعمال سے نوجوان نسل کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا، تو مسلم لیگ نون نے پہلی مرتبہ تیزی سے بدلتے سیاسی منظرنامے پر توجّہ دی۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ہونے کے باوجود عمران خان نے اُس برس لاہور کے مینارِ پاکستان کے مقام پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا، جس میں وہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے میں کام یاب رہے۔ اِس جلسے کے شرکاء کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔
اس کے بعد2012 ء میں مسلم لیگ نون، پاکستان تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا پر بڑھتے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مریم نواز کو میدان میں لے کر آئی۔ اُنھوں نے نون لیگ کے میڈیا وِنگ کو متحرّک کیا اور سوشل میڈیا پر خاص توجّہ مرکوز کی۔ یہاں سے مریم نواز نے جماعت کے اندر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کیا اور نواز شریف نے بھی غالباً زیادہ سنجیدگی سے اُن کی سیاسی سمجھ بوجھ کو بھانپنا شروع کیا۔ 2013ء میں جب نواز شریف کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی، تو مریم نواز کو’’ وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام‘‘ کی چیئرپرسن مقرّر کر دیا گیا، تاہم وہ زیادہ عرصہ اس عُہدے پر نہ رہ سکیں اور اُنھیں اُس وقت اسے خیرباد کہنا پڑا، جب پی ٹی آئی نے ان کی تعیّناتی کو’’سفارش کلچر کا شاخسانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
اس وقت تک مریم نواز یہ اصرار کرتی رہیں کہ’’وہ صرف اپنے والد کی جماعت کے سائبر سیل کی اعانت کر رہی ہیں اور ان کا عملی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ تاہم، جلد ہی اُنھیں یہ فیصلہ بدلنا پڑا۔2017 ء میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف وزارتِ عظمٰی کھو بیٹھے۔ اِس مرتبہ اُنھیں پاناما مقدمے میں سپریم کورٹ سے سزا ہوئی اور وہ ’’ووٹ کو عزّت دو‘‘ کا ایک مزاحمتی بیانیہ لے کر سڑکوں پر آ گئے، جس میں اُنھوں نے اُس وقت کی فوجی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کو نشانے پر لیا۔ نواز شریف نے پنجاب میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے جگہ جگہ جلسے کیے اور اپنی تقاریر میں عدلیہ اور اُس وقت کی فوجی قیادت کو اپنی وزارتِ عظمٰی چھیننے کا ذمّے دار قرار دیا۔ پنجاب میں اُن کے اس بیانیے کو پذیرائی ملتی نظر آ رہی تھی۔
تاہم، اس کے بعد پاناما سے متعلق مقدمات میں جب نواز شریف کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے اور بعدازاں اُنھیں سزائیں ہوئیں، تو ان کی جگہ مریم نواز نے عوام میں جا کر ان کے’’ ووٹ کو عزّت دو‘‘ کے بیانیے کی ترجمانی شروع کی۔ یہ عملی سیاست میں اُن کا پہلا قدم تھا۔ اُس وقت تک نواز شریف کے لیے جانشین کے امیدوار صرف حمزہ شہباز شریف تھے، لیکن اس کے بعد حالات بدل گئے۔
مریم نواز اپنے والد کے ساتھ مزاحمتی بیانیے پر ڈٹ کر کھڑی ہوئیں۔ اس دور میں نواز شریف کے بیانیے پر ڈٹ کر کھڑے رہنے، اُن کا ساتھ دینے، اُن کے ساتھ جیل کاٹنے اور پھر اُن کی غیر موجودگی میں جماعت کو فعال رکھنے جیسے امور سے مریم نواز اپنے والد کی جانشینی کے امیدوار کی جگہ لے چُکی تھیں۔ یہی وہ جگہیں ہیں، جہاں حمزہ شہباز، مریم نواز سے پیچھے رہ گئے اور آج وہ نہیں، بلکہ مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔
دہائی قبل کی پیش گوئی…پہلی باضابطہ منزل
مریم نواز یوں تو اپنے اہلِ خانہ، خاص طور پر نواز شریف کے ہم راہ متعدّد ممالک کے دورے کرچُکی ہیں، جب وہ وزیرِ اعظم تھے، لیکن ان دوروں میں اُن کی حیثیت وزیرِ اعظم کی صاحب زادی اور مصروفیات بیرونِ مُلک شاپنگ ہی تک محدود رہیں۔ البتہ، 2015ء میں جب وزیرِ اعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے امریکا کا سرکاری دورہ کیا، تو مریم نواز بھی ان کے ہم راہ تھیں اور وائٹ ہائوس میں ہونے والی ایک تقریب میں انہیں امریکا کی خاتونِ اوّل مشیل اوباما سے ملاقات اور تقریب سے خطاب کا بھی موقع ملا۔ یقیناً اُن کے لیے یہ ایک یادگار موقع تھا۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی یہ تقریب ترقّی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے تھی، جس میں مریم نواز کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور وائٹ ہائوس پہنچنے پر امریکا کی خاتونِ اوّل نے خود اُن کا خیرمقدم کیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیل اوباما کا کہنا تھا کہ’’خواتین کی ترقّی کے لیے ہم سب کو مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی اور مِل جُل کر آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘ اُنہوں نے پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حصولِ علم کے لیے مختلف منصوبوں کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور صحت سے متعلق مختلف پروگرامز شروع کیے جائیں، جن سے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے میں بہت مدد ملے گی۔‘‘امریکی خاتونِ اوّل نے ترقّی پذیر ممالک کے لیے’’ گلوبل گرلز پروگرام‘‘ کا بھی حوالہ دیا۔
اِس موقعے پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ’’وائٹ ہائوس میں بچیوں کی تعلیم سے متعلق منعقدہ پروگرام میں شرکت کر کے بہت خوشی ہوئی، خواتین قوم اور مُلک کا مستقبل ہوا کرتی ہیں، پوری دنیا میں خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے، قومی ترقّی کے لیے لڑکیوں کو باشعور بنانا بہت ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ اِس حوالے سے پاکستان میں بہت کام ہو رہا ہے اور حکومت کے مختلف پروگرامز پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔‘‘
مریم نواز کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’پاکستان میں مسلم لیگ (نون)کی حکومت لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا عزم کر چُکی ہے۔‘‘ تقریباً ایک دہائی قبل مریم نواز کا یہ اظہارِ خیال دنیا کی سُپرپاور کے صدر کی اقامت گاہ میں ہونے والی ایک تقریب سے تھا اور اس موقعے کی ویڈیو کوریج دیکھنے والے حلقوں نے مریم نواز کی انتہائی پُراعتماد تقریر اور امریکی خاتونِ اوّل سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے اُس وقت یہ پیش گوئی اور دعویٰ کیا تھا کہ’’ مریم نواز میں وہ تمام صلاحیتیں اور اعتماد موجود ہے، جو مستقبل میں اُنھیں اپنے والد کا جانشین بنا سکتا ہے۔‘‘
اور اب جب کہ گزشتہ دس برسوں میں مریم نواز نے سیاسی زندگی کے نشیب و فراز بھی دیکھ لیے، جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کر لیں اور اپنے والد کے سیاسی دفاع اور اُن کی معاونت کے لیے پاکستان کی سیاست میں ایک اہم کردار بھی تسلسل کے ساتھ ادا کرتی آ رہی ہیں، تو اس پیش گوئی اور دعوے کی حقیقت کی پہلی باضابطہ منزل اور آغاز، مریم نواز کا مُلک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنا ہے۔