• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سے پیوستہ

قارئین کرام !غور فرمائیں !وطن عزیز ہماری اسلامی جمہوریہ اپنے قیام کے تین ربعہ (75سال) مکمل ہونے کے بعد آخری ربعہ کا بھی پہلا سال مکمل کر چکی ،یوں ہم پاکستان کی دوسری صدی کی مسافت پر ہیں ۔پہلا ربعہ (25سال) مکمل ہونے سے قبل ہم ملک ٹوٹ کر دو بن جانے، نسلوں کےلئے قومی صدمہ بن جانے والے اس حادثے کی واحد توجہ مملکت کا بے آئین رہنا اور پہلے عشرے کا سیاسی خلفشار اور عوام کی نظروں سے اوجھل ایوان ہائے اقتدار کا مکمل سازشی ماحول تھا۔ ہماری تاریخ کی یہ کہانی ایک عشرے کی نہیں آنے والا ہر عشرہ ہی مملکت کے دو لخت اور حامل آئین ہونے کے باوجود (بھی) کسی اور روپ اور بدرنگ عشرے کا ایپی سوڈ بنتا گیا۔بحیثیت مجموعی ہمارا یہ سفرجس میں ہماری ہم سفر کتنی ہی ترقی پذیر اقوام، نیم ترقی یافتہ ہو گئیں بڑا کڑا رہا بہاروںسے لڑتی خزاں اور آندھیوں جھکڑوں کا غلبہ رہا ۔پھر بھی ملغوبہ ریاستی نظام قومی صبرو شکر اور مزاحمت و ہمت سے چلتا رہا ،گرتے پڑتے سنبھلتے حصول مقاصد مملکت کا سفر اٹی رکاوٹوں میں بھی جیسے تیسے جاری رہا ہم نے جانب منزل بڑی کامیابیوں کے لئے خطرناک ڈھلوانوں پر بلندیوں کا سفر بھی کیا اپنے ہی عوامی جوہر نایاب سے جوہری طاقت بھی بنے بنانے والوں کو رسوا بھی کیا اور خوشحالی کے اہداف حاصل کرکے بڑی بڑی حماقتوں ہوس دولت ،بددیانتی، خودغرضی، لالچ، کنبہ پروری اور سب سے بڑھ کر جمہور سے تصادم ،موروثی راج جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہو کر پہاڑوں پر چڑھتے چڑھتے ڈھلوانوں سے بار بار لڑھک کر آغاز سفر سے بھی نیچے گرتے رہے ۔

پاکستان کا انتظامی اختیارات سے مالا مال ہر آئینی اور عملی و اصلی منتظم اپنی منصبی حیثیت و ذمے داری سے ذرا سوچے کہ :مملکت خداداد میں حصول عزت و آزادی، تحفظ و خوشحالی کے تمام تر تصورات و وسائل اور راہیں مکمل واضح ہونے ،پھر تحریک قیام پاکستان کی سنہری تاریخ کی اساس و نظریے کے باوجود اس باوقار و بیش بہا قومی سرمائے سے متصادم، بدنام زمانہ جمہور دشمن اشرافیہ نے اپنے ناجائز سرمائے اور ماورا آئین اختیارات کے زور پر خوبصورت اور اعلیٰ صلاحیت و جفاکش پاکستانیوں پر آخر کیسے 76سالوںسے اولیگارکی (نظام مافیا راج) کو مسلط کیا ہوا ہے۔ طرز کہن کایہ نظام بد آج آئین نو کی راہ میں جملہ اقسام کی رکاوٹیں کھڑی کرکے اپنی انتہا و فسطائیت کے زور پر عوام سے لڑنے بھڑنے پر اتر آیا ہے تب جب بالآخر عوام بھی طویل ترین صبرو برداشت اور مہلتوں کے بعد بالآخر اپنے آئینی جمہوری حق کے زور پر کمال اجتماعی وقار و حکمت سے اولیگارکی مافیاز کو بیلٹ پاور سے ذلت آمیز شکست دے چکے، ذلت آمیز اس طرح کہ مافیا راج نے انعقاد کے اولین (بمطابق آئین) ذمے دار الیکشن کمیشن کو بطور ہتھیار بنا کر باشعور اور حب وطنی سے بھرپور عوامی عدالت کے فیصلے کو الیکشن سے پہلے پولنگ اور تادم سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن عوام کی کمال اور مکمل پرامن مزاحمت، ووٹ کی بظاہر رسوائی کےباوجود جاری ہے ۔عوام کے تبصرہ دیکھتے خلق خدا کو دھوکے کے لئے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا جو بیانیہ گھڑا گیا تھا گھڑنے والے اسے دفنا کر سیاسی سودوں، سازشی حربوں اور ناجائز دولت کے زور پر ، مافیا راج بڑے زور شور اور عوامی مزاحمت کے ماحول میں قوم و ملک پر تو مسلط ہو گئے لیکن بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مسلط کرکے سیاسی و معاشی استحکام کی بحالی کے ناقابل یقین ومنطق یہ جو ریتیلے صحرا سے مچھلی تلاش کی جا رہی ہے کیا کچھ ہاتھ آ جائے گا؟ہرگز نہیں تجربات سے ہمیشہ ٹائم بائونڈ ہوتے ہیں وگرنہ خسارے و مایوسی یقینی ہے آخر کب تک ایک سے ایک نئے تجربے کی مہم جوئی خدارا بس کریں عوام سے شکست خوردہ اولیگارکی سے کسی صورت سیاسی استحکام آئے گا نہ معاشی جان کنی سے چھٹکارا ہو گا۔ اللہ نہ کرے اس تگ ودو میں کوئی اور بڑا حادثہ نہ ہو جائے اور یہ جو اب اتنے بڑے سیاسی کھیل کھلواڑے کے بل پر حکومتیں قائم کرکے ’’مفاہمت‘‘ کا مکارانہ بیانیہ گھڑ کر سارے مسائل کا حل بتایا جا رہا ہے اس سے متعلق تمام خبروں تجزیوں ، حل و تجاویز میں عوام کا نام ونشان نہیں کہ ان پر کیا گزری اور گزر رہی ہے۔جبکہ حال یہ ہے کہ آپس میں جتنی مفاہمت تھی وہ بھی قائم نہ رہی۔مولانا صاحب اور پارٹیوں کے اندر کیا ہو رہا ہے ؟کسی کو ہوش ہے کہ پاکستانی نظام عدل وانصاف کا عوام میں اعتماد کا درجہ کم تر ہی نہیں ہو گیا زمین سے لگ گیا ہے اور جو ریاستی اداروں اور عوام میں خلا بڑھ رہا ہے ؟الیکشن کمیشن نے کروڑوں ووٹرز کے ساتھ جو تشویشناک کھلواڑ مچایا کیا اب بھی اسے ہی بااختیار رہنا چاہئے یا حالات کو قدرے اور جلد سے جلد سنبھالا دینے کےلئے ٹائم بائونڈ فیصلوں کا پابند بااعتماد و غیر جانبدار و آزاد نئے الیکشن کمیشن کا قیام نا گزیر نہیں ہوگیا ؟ بالکل ہو گیا جناب سراج الحق کا مطالبہ فوری توجہ کا تقاضہ نہیں کر رہا ؟اور اولیگار کی اورینٹڈ میڈیا ٹاکس میں جیتوں کو ہرانے والے جو تجربہ کار اور ماہرین قانون دہائی ڈالنے والوں کو قانون اور الیکشن کمیشن کی جو راہ دکھارہے ہیں عوام کو آخر کتنا بیوقوف سمجھتے ہیں ؟ان کی سیاسی مکاری آخر کہاں ختم ہو گی؟ٹی وی اسکرینوں پر دانستہ روتے دھوتے چہرے دکھا کر جبراً قبولیت اقتدار کا تماشہ عوام کو نہ دکھائیں، اتنا ہی جبر ہوا ہے تو عوام کے ساتھ آن کیوں نہیں ملتے ؟استاد گرامی مولانا صاحب سے مطلب کی ہی مسکراتی ملاقاتیں ہوتی ہیں حرف آخر لکھتے پھر مہنگائی و بیروزگاری اور بڑھتی غربت کے ساتھ ساتھ ابھی ابھی اپنا مینڈیٹ لٹائے ووٹر پھر یاد آ گئے ساتھ ہی جگر مراد آبادی کا یہ شعر ٹھک سے زبان پر اتر آیا۔

کبھی شاخ وسبزہ وبرگ پر

کبھی غنچہ وگل وبہار پر

میں چمن میں چاہے جہاں رہوں

میرا حق ہے فصل بہار پر

واضح رہے یہ اپریل 22کے پہلے عشرے کے بعد دوسری بہار ہے جسے عوام دشمن مافیا راج نے بدترین سیاسی کھلواڑ سے مکدر کیا اورا سپرنگ 23میں غربا کو آٹا بٹائی پر 22فاقہ کش موت کے منہ میں گئے اور تقسیم میں 20روپے کی چوری ہوئی لیکن مکمل واضح ہے کہ عوام بھی آخری پوزیشن لے چکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین