• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے میں جب غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور شہادتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، امریکہ نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کیلئے پیش کی گئی قرارداد کو ایک بار پھر ویٹو کردیا ہے جس نے دنیا بھر کے سامنے امریکہ کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ مذکورہ قرارداد الجزائر کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کی ہو، اس سے قبل بھی امریکہ دو مرتبہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرچکا ہے۔ قرارداد ویٹو کئے جانے سے دو روز قبل واشنگٹن میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر امریکی فضائیہ کے ایک اہلکار کی خود سوزی نے جوبائیڈن حکومت پر تنقید میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ 25 سالہ ایرون بش نیل کی خود سوزی کی ویڈیو جس میں اسے خود پر آتش گیر مادہ ڈالتے اور یہ اعلان کرتے دیکھا جاسکتا ہے کہ ’’میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاجاً یہ قدم اٹھارہا ہوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مزید شامل نہیں ہوں گا۔‘‘ ایرون بش نیل خود سوزی کے 7 گھنٹے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگیا مگر اس کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس نے دنیا بھر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا لیکن امریکی صدر جوبائیڈن پر اس واقعہ کا کوئی اثر نہ ہوا اور ایک آئس کریم شاپ پر جوبائیڈن کی آئس کریم کھاتے وائرل ویڈیو نے امریکی عوام اور دنیا بھر کے میڈیا کو مشتعل کردیا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر آئس کریم کے مزے لے رہے ہیں جس پر وہاں موجود ایک صحافی، جوبائیڈن سے سوال کرتا ہے کہ ’’اگر آپ کا بچہ کسی کی بربریت کا شکار ہوتا تو کیا آپ اسی طرح آئس کریم کے مزے لے رہے ہوتے؟‘‘ صحافی کے سوال پر جوبائیڈن کوئی جواب نہ دے سکے اور کہنے لگے کہ ’’قومی سلامتی کے مشیر نے انہیں بتایا ہے کہ ہم غزہ میں سیز فائر معاہدے کے بہت قریب ہیں۔‘‘ جوبائیڈن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سعودی عرب اور قطر سمیت 6 عرب ممالک ان سے رابطے میں ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے بدلے اسرائیل سے تعلقات کا عندیہ دیا ہے تاہم جوبائیڈن کے بیان کے ردعمل میں اسرائیل کے وزیر توانائی اور سابق وزیر خارجہ ایلی کوہن کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے بدلے سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک سے تعلقات قائم نہیں کریں گے اور اگر علاقائی تعلقات کی توسیع کی قیمت فلسطینی ریاست کا قیام ہے تو یہ اسرائیل کو قبول نہیں۔

غزہ میں جاری جنگ اور اسرائیل کے بڑھتے مظالم پر وہ ممالک جو پہلے اسرائیل کا دفاع کررہے تھے، اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے امریکہ پر شدید تنقید اور اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے زور دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کرنے والے اسلامی ممالک میں سرفہرست ترکی کے صدر رجب طیب اردوان رہے جنہوں نے حماس کو ’’مجاہدین آزادی‘‘ اور اسرائیل کو ’’انسانیت کا قاتل‘‘ قرار دیا جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی تعلقات منقطع کرکے اسرائیل کو تیل اور خوراک کی برآمدات روک دیں۔ اسی طرح اردن نے غزہ کے معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو ’’فاشسٹ‘‘ قرار دیا جبکہ سعودی عرب، یو اے ای، بحرین، قطر اور پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک اسرائیلی مظالم کیخلاف صرف مذمتی بیانات دینے تک محدود رہے تاہم ان اسلامی ممالک کے عوام، اسرائیل کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں جو نہ صرف اسرائیل کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں بلکہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کررہے ہیں جس سے امریکہ اور اسرائیل کی معیشت کو کافی دھچکا پہنچا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں 57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم OIC اور کچھ اسلامی ممالک، غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف مذمتی بیانات تک محدود ہیں، وہاں غیر اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف ایسے اقدامات کررہے ہیں جو حیران کن ہے جن میں نیلسن منڈیلا کے ملک جنوبی افریقہ کا اپنے معاشی و سفارتی تعلقات کی پروا نہ کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا اور عالمی عدالت کا اسرائیل کو مجرم قرار دینا قابل ذکر ہے۔ اسی طرح اب برازیل نے بھی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں اور برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کو ہٹلر اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو ہولو کاسٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلالیا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ غزہ کی صورتحال اس قدر بگڑ جائے کہ وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی سرحد پار نقل مکانی کرجائیں اور اسرائیل، فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبے میں کامیاب ہوسکے۔

موجودہ صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل عالمی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہیں مگر غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور کچھ اسلامی ممالک کی خاموشی معنی خیز ہے۔ دوسری طرف غیر اسلامی ممالک کا فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں آواز اٹھانا اور اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنا قابل ستائش ہے۔ اسی طرح ایک غیر مسلم امریکی فوجی اہلکارکی اسرائیلی مظالم کے خلاف اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے خود سوزی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ غیر مسلم بھی فلسطینی مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں جو ہمارے مسلم حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

تازہ ترین