• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی قریب قریب ناگزیر ہو چکی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس سے بچنے کے لئے مخصوص حلقوں نے کم و بیش دس برس تک شدت پسندوں کی وکالت کی، دہشت گردی کے حق میں تاویل آرائیاں کیں، جھوٹ تراشے ،ایران ،توران کے قصے گھڑے۔ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی اس مشق کا اب ایک نیا مرحلہ شروع ہونے کو ہے۔ اب یہ خیر خواہ ہم پر نئے زاویوں سے حملہ آور ہوں گے۔ان کی بھرپور کوشش ہو گی کہ حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، فوجی کارروائی کی معلوم اور مفروضہ تفصیلات پر نکتہ چینی کی جائے گی نیز دہشت گردی کی ہر واردات کو فوجی کارروائی کا ردعمل قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان سیاسی اور تمدنی قوتوں پر چھینٹا اڑایا جائے گا جو دہشت گردی کے خلاف ریاستی اقدامات کی حمایت کریں گی۔ اس مشق کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مہم کے ابتدائی خدوخال کا جائزہ لینے سے پہلے کچھ اصولی نکات کا بیان ہوجائے۔ کسی بھی جمہوری ریاست میں جنگ جیسے اہم ترین معاملات پر حتمی فیصلہ منتخب قیادت کرتی ہے تاہم کارروائی کی زمینی حکمت عملی کا تعین فوجی قیادت کرتی ہے۔ چھوٹی موٹی تفصیلات پر اختلاف رائے کے امکان سے قطع نظر ،منتخب اور عسکری قیادت میں یہ تقسیم کار جمہوریت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت میں دہشت گردی کے سوال پر اتفاق رائے موجود ہے۔ واضح رہے کہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنا دہشت گردوں کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس مرحلے پر تمام سیاسی اور تمدنی قوتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قومی سلامتی کے اس اہم ترین سوال پر حکومت اور فوج کے ساتھ پوری یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ درست ہے کہ جنگ کے دوران بھی سیاسی اور فوجی کارکردگی پر تنقید کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن ایسی تنقید کا مقصد قومی اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ہمارے ممکنہ ناقدین کا غالب حصہ سرے سے ریاستی کارروائی ہی کا مخالف ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ غنیم کے موہوم مطالبات اور مذموم ارادوں کے سامنے سپر ڈال دی جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ عناصر طالبان کے مطالبات سے فکری اتفاق رکھتے ہیں۔
جدید تاریخ میں سیاسی اور عسکری قوتوں کے باہمی تعلق کی حرکیات کو سمجھنے کے لئے ونسٹن چرچل کا حوالہ ناگزیر ہے۔ ڈیلاوئر یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ریمنڈ کالہان نے اپنی کتاب ’’چرچل اور اس کے جنرل ‘‘ (مطبوعہ 2007ء) میں اس موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ ایک صدی سے بھی زیادہ مدت میں چرچل برطانیہ کا پہلا وزیراعظم تھا جو فوجی زندگی کا عملی تجربہ رکھتا تھا۔ وہ اپنے جنرلوں پر کڑی تنقید کرتا تھا ، ان کی رائے کے خلاف فیصلے صادر کر دیتا تھا۔ اختلاف کرنے والوں کو برطرف کر دیتا تھا۔ اس نے 1942ء میں جنرل ویول کو شمالی افریقہ کی کمان سے ہٹا کر ہندوستان روانہ کیا اور پھر اسی برس اس کے پیشرو جنرل آکن لیک کو بھی ہٹا کر جنرل منٹگمری کو میدان میں اتارا۔ یہ سب فوجی افسر دوسری عالمی جنگ کے بہترین کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ چرچل ان کی صلاحیتوں سے بے خبر تھا تاہم وہ سمجھتا تھا کہ فوجی کمانڈر کی سوجھ بوجھ محاذ کی صورت حال تک محدود ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت کو معاشی ، تمدنی ، سیاسی حقائق کے علاوہ بین الاقوامی امور پر بھی نظر رکھنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عوامی نمائندے قوم کی نفسیاتی ضرورتوں کا بھی بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ چرچل کے جنرل جانتے تھے کہ محاذ جنگ پر بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود وہ چرچل جیسی سیاسی صلاحیت سے محروم تھے جو پارلیمنٹ میں ایک تقریر سے قوم میں نئی روح پھونک سکتا تھا۔ برطانیہ رقبے اور افرادی قوت کے اعتبار سے روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ امریکہ جیسی معاشی قوت رکھتا تھا۔ اس کے باوجود چرچل کی مدبرانہ قامت کی بدولت برطانیہ کو عالمی جنگ میں قائدانہ مقام حاصل تھا۔ فیصلہ سازی میں سیاسی قیادت کی اس بالادستی سے عسکری رہنمائوں کے احترام میں کوئی کمی نہیں آتی کیونکہ اختیارات کی یہ تقسیم جمہوری بندوبست کا آئینی تقاضا ہے۔
ان ناخوش اندیش عناصر نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاسی قیادت اور فوج میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔ مکمل اتفاق رائے دو افراد میں بھی ممکن نہیں ہوتا یہ تو قومی اداروں کا معاملہ ہے۔ اس نازک مرحلے پر یہ شوشہ چھوڑنا ایک خوفناک شرارت ہے۔ اس دعوے کے حق میں کچھ بے سروپا نکات پیش کئے گئے ہیں۔ مثلاً فوج بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر حکومت کے طریقہ کار سے متفق نہیں۔ یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے کسی سیاسی یا فوجی حکمران نے بھارت کے ساتھ معاملات میں اپنے ملکی مفادات کا سودا نہیں کیا تاہم ہر حکومت کو وسیع تر عصری تناظر میں فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ وہم ترک کر دینا چاہئے کہ سیاسی حکمران کمزور ہوتے ہیں یا یہ کہ ان کی حب الوطنی مشکوک ہوتی ہے۔ جنرل ایوب کی طرف سے بھارت کو مشترکہ دفاع کی تجویز سے لے کر مشرقی پاکستان، سیاچن اور کارگل تک بہت سے تاریخی حقائق متنازع فیہ ہیں لیکن یہ اس طرح کے مجادلے کا موقع نہیں۔ سامنے کی بات ہے کہ حکومت اور فوج بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری نقطہ نظر میں اختلاف کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے تاہم عوام نے میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو قومی نصب العین کے تعین کا اختیار سونپا ہے۔ ریاست اور معاشرے کے تمام طبقوں کو اس جمہوری اختیار کا احترام کرنا چاہئے۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے معاملے پر فوج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہماری فوجی قیادت عدلیہ کے بدلے ہوئے کردار سے بے خبر ہو ۔ فوج میں جنرل پرویز مشرف سے ہمدردی کا امکان قدرتی ہے لیکن اس معاملے کو اس طرح اچھالنا کہ فوج اور حکومت متحارب فریق نظر آئیں ، قومی مفاد کے منافی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فوج پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی سے ناخوش ہے۔ حکومت نے تو صرف یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ ہم 80ء اور 90ء کی دہائی میں ایسی مداخلت کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ یہ ایک مدبرانہ فیصلہ ہے۔ سمندر تک رسائی سے محروم ایک ہمسائے کے طور پر افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خصوصی درجے کے حامل ہوں گے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم افغانستان کو اپنا پائیں باغ سمجھ لیں۔ جس طرح ہمیں بھارت کے ساتھ مساوی درجے کی خواہش ہے ، افغان قوم کو بھی اپنی خودمختاری کے مطالبے کا حق ہے۔ یہی ہماری ریاست کی بیان کردہ پالیسی ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے برہمی کی اچھی کہی۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی موجودہ آزادی ہمارے جمہوری ارتقا کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہماری صحافت نے فوج کے احترام کو فروغ دینے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے تاہم سیاسی عمل میں غیر آئینی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ یہ متعلقہ افراد کی مخالفت تھی، اسے فوج کی توہین قرار دینا محض شرارت ہے۔ قومی ریاست میں دفاعی اداروں کے کردار سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتوں کا وہ غیر فطری توازن ناگزیر طور پر تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے جو 1979ء کے بعد پاکستان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس ناکام بندوبست سے ناجائز مفادات اٹھانے والوں کا ان تبدیلیوں سے خائف ہونا قابل فہم ہے۔ ان حلقوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ فوج اور جمہوری قیادت حلیف ہیں، حریف نہیں۔ پاکستان میں آئین کی بالادستی ہو گی، جمہوریت مستحکم ہو گی، معیشت ترقی کرے گی اور عوام کا معیار زندگی بہتر ہو گا تو ساری قوم کی طرح فوج بھی مضبوط اور محترم قرار پائے گی۔ فوج تو پاکستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ البتہ طالبان کے ہمدردوں کو اپنے ٹھکانے کی فکر کرنی چاہئے۔
تازہ ترین