اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتار وی لاگر اسد طور کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کال اپ نوٹس اور ہراسانی روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے وی لاگر اسد طور کی کال اپ نوٹس کے ذریعے ایف آئی اے میں طلبی اور ہراسانی روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر اسی انکوائری پر درج ہوئی جس پر طلبی نوٹس بھیجا گیا؟ ایمان مزاری نے بتایا طلبی نوٹس میں جو الزام تھا ایف آئی آر اس سے مختلف ہوئی ہے۔ یہ ایف آئی اے کے اپنے پراسس کی خلاف ورزی ہے۔ ایف آئی اے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کیسے کسی اور کی طرف سے شکایت درج کرا سکتا ہے؟
ایمان مزاری نے دلائل دیے کہ سورس رپورٹ، طلبی نوٹس اور ایف آئی آر تینوں مختلف ہیں۔ گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے حکام سے کہا بتائیں کہ انکوائری کہاں سے شروع کی؟ ایف آئی آر کہاں ختم کی؟ پٹیشنر کا کہنا ہے کہ آپ کا نوٹس دو لائن کا ہے باقی کچھ نہیں۔ کیا نوٹس اور ایف آئی آر میں مطابقت نہیں ہے؟ اس نے سپریم کورٹ سے متعلق کیا کہا ہے؟
اس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا عدالت کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں، پٹیشن کے بعد ایف آئی آر کا اندراج ہوا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر نوٹس عدالت کالعدم قرار دے دے تو کیا ایف آئی آر پر کچھ فرق پڑے گا یا نہیں؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جہاں پر عدلیہ ہو آرمڈ فورسز ہو، ایسے معاملات میں خاص طور پر احتیاط برتنی چاہیے۔ ایسے کیسز میں شفافیت زیادہ ہونی چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی کیوں پراسیکیوٹ ہو رہا ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔