• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل سیّد عاصم منیر کی زیرصدارت گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی،جس میں دیگر معاملات پر غور کے علاوہ چند باتوں کی وضاحت کی گئی۔ اس کانفرنس میں واضح کیا گیا کہ انتخابی عمل کے دوران عوام کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے علاوہ پاک فوج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری تھی کہ بعض سیاسی عناصر انتخابی نتائج کے حوالے سے فوج کی مداخلت کی جھوٹی مہم کے ذریعے فوج کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ 9مئی کے واقعات کے ذمہ داران، ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کے بارے میں بھی واضح کیا گیا کہ ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا اور اس بارے میں کسی کے ساتھ کو ئی رُو رعایت نہیں برتی جائے گی۔ کانفرنس میں مسلح افواج کےجن افسروں، جوانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور شہریوں نے اپنی جانوں کی عظیم قربانیاں دی ہیں، ان تمام شہداء کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور اس اَمر کا اظہار کیا گیا کہ دُشمن قوتوں کے اشارے پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنیوالے دہشت گردوں، انکی حوصلہ افزائی کرنیوالوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔ کانفرنس میں بعض مخصوص مگر محدود سیاسی عناصر کی طرف سے سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلح افواج کو بدنام کرنے کے بیانات کی شدید مذمت کی گئی ہے جس کا مقصد ملک میں سیاست کے نام پر عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اس وقت جب پرامن ماحول میں انتخابی عمل کی تکمیل ہوئی۔ نئی حکومت کا قیام اتفاق رائے کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں موقع فراہم کیا گیا اور اب جب معاشی بہتری کی طرف گامزن پاکستان میں سیاسی ہم آہنگی اور استحکام کی ضرورت ہے، ایسے موقع پر بعض عناصر جمہوریت اور سیاست کے نام پر ملک کو معاشی دلدل کی طرف لے جانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب تو پوری دُنیا میں یہ ہے کہ جو ہار جائے وہ اس کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرے یہ نہیں کہ جہاں وہ جیت جائے وہ ٹھیک ہے لیکن جہاں وہ الیکشن ہار جائے اس کو بنیاد بنا کرملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ کچھ لوگوں کا ایجنڈا ہی شاید یہی ہے۔ ایسے لوگوں کو کور کمانڈرز کانفرنس میں قانونی راستہ اور متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پاکستان شدید متاثر ہو رہا ہے ان اثرات میں زرعی پیداوار، صحت اور پانی کی کمی سرفہرست ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ سال بھی پاکستان میں سیلاب آیا جس سے ملک کے مختلف حصوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں انسانی جانوں، فصلوں اور مویشیوں کا بے حد نقصان ہوا۔ ملک میں صحت سے متعلق مسائل اور بعض امراض کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے پانی کی کمی ایک بنیادی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں زیرزمین پانی کی مقدار میں تشویشناک کمی ہو رہی ہے جو انسان اورجانوروں کی زندگیوںکیلئے انتہائی اہم ہے۔ اس تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے کر اور پیش بندی کیلئے منصوبہ سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ملک میں معاشی اصلاحات لانے پر فوری توجہ دی جائے۔ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ اگرچہ وقت کی ضرورت اور مجبوری ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی مجبوریوں پر قابو پانےپر فوری توجہ دینا بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ صرف قرضوں پر قرضے لینے سے ملک کی معاشی حالت میں کبھی بہترنہیں آسکتی۔ اندرونی اور بیرونی ملک کے سرمایہ کاروں کیلئے کسی ملک میں استحکام اور امن و امان کی فضا ہونا بنیادی نکتہ ہے۔ لیکن اگر چند لوگ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے پر تُلے ہوئے ہوں۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے روکنے کی گھنائونی کوشش کررہے ہوں۔ ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف غلیظ اور مکروہ پروپیگنڈا کرتے ہوں اور ان تمام مذموم کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ یا تو ان کو کھلی چھٹی دی جائے اور اقتدار ان کے حوالے کیا جائے ورنہ پھر ملک و قوم کا جتنا بھی نقصان ہو جائے اس کی ان کو پروا نہیں ۔

مخصوص جماعت کے بانی نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ چند حلقوں کو کھولا جائے۔ یہی مطالبہ 2014ء میں کیا گیا تھا۔ ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تھا۔ ملک میں شاہراہیں بند اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ عظیم دوست ملک چین کے صدر کی پاکستان تشریف آوری میں رُکاوٹ ڈالی گئی تھی۔ ان تمام ملک دُشمن اور ناپاک حرکتوں کا کوئی فائدہ ان لوگوں کو نہیں ہوا بلکہ آخرکار بوریا بستر سمیٹ کر ناکام واپس جانا پڑا۔ اب پھر وہی عناصر اور وہی مطالبے ہیں۔ لیکن اس بار وہی کچھ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے ایسے عناصر کو متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی نے بھی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو پنجاب حکومت گڑبڑ کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کہ پرامن احتجاج کریں لیکن احتجاج جائز مطالبات پر اور پرامن ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پورے ملک پر زبردستی اپنی رائے مسلط کی جائے۔ اگر ایک صوبے میں حکومت بھی قائم ہو جائے تو وہاں انتخابات شفاف لیکن جہاں ہاریں وہاں دھاندلی۔ یہ کونسی منطق ہے۔ کے پی کے میں جس اہم سیاسی شخصیات کو ہرایا گیا ہے کیا وہ دھاندلی نہیں ہے۔ ریاست پوری طرح باخبر اور مستعد ہے اور ملک معاشی بحالی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ اب کسی کو ملک کے مستقبل سے کھیلنے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ اب نرمی نہیں سختی ہوگی۔

تازہ ترین