• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024ءکے انتخابات میںصاحبان جبر و قدرنے تحریک انصاف کی دو تہائی اکثریت ختم کرنے کیلئے ایک بدعنوان ٹولے کو اقتدار کے دسترخوان پر بٹھا دیا۔تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ اتنا بڑا تھا اور ملک بھر میں اس کی حمایت کی بنیاد اتنی پرجوش ہے کہ عوام نے دوٹوک انداز میں خود ساختہ نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ خدشہ ہے کہ بے چین سرگوشیاں کہیں خوف ناک دھماکہ بن کر سڑکوں پر نہ پھیل جائیں ۔چنانچہ ایک طرف ہم ایسی حکومت کا قیام دیکھ رہے ہیں جس کے پاس کوئی مینڈیٹ یا ساکھ نہیں، تودوسری طرف بڑھتی ہوئی بے چین آبادی کے تیور ہیں جو انتخابی نتائج کی نصف شب ڈکیتی کا مداوا چاہتی ہے۔

اور ایسا کیوںنہ ہو؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے حاکم مزاج ٹولے کیلئے انتخابی عمل میں مداخلت کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ ایسے نتائج مرتب کر سکیں جو اس ملک کے عوام کے نتائج پرغالب آجائیں؟ ایسے ایجنڈے کو پورا کرنےکیلئے جو ملک یا اس کے عوام کے فائدے کیلئے نہیں ہو سکتا، اس نظام کو کیوں ہائی جیک کیا جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ثابت شدہ بدعنوان ٹولے کو اقتدار کی کرسیوں پربٹھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ عوام کی قسمت کے فیصلے کریں جنھیں اس ٹولے پر نہ بھروسہ ہے نہ اس کا احترام ۔ کیوں ریاستی اداروں کو استعمال کرکے ایسے لوگوں کو ان گنت جرائم سے پاک کیا جاتا ہے جن کا فاضل عدالتوںنے انھیں بجا طور پر قصوروار ٹھہرایا تھا؟ کیا ملک کو نقصان پہنچانے والا یہ سرکس ہمیشہ جاری رہے گاجو پہلے ہی گہری کھائی کے دہانے پر ڈگمگا رہا ہے ؟کیوں چند افراد کے ہاتھ اس ریاست کی قسمت کی ڈور تھما دی جاتی ہے اور عوام کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کہ اس کے حقیقی مالک ہیں ۔ یہ صرف چند ایک سنگین بے ضابطگیاں ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید زور پکڑ رہی ہیں اور پاکستان اور اس کے غریب اور پسماندہ لوگوں کے مستقبل پر تاریک سائے ڈال رہی ہیں۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ نتائج کو ہائی جیک کرنے کی پوری کارروائی نہایت ڈھٹائی اور دوٹوک طریقے سے سر انجام دی گئی۔ ووٹنگ کے اوقات کے اختتام پر جاری کردہ فارم 45 جو ہر پولنگ اسٹیشن کے نتائج کی علیحدہ علیحدہ تصدیق کرتے ہیں، کی راتوں رات جعلی نقلیں تبدیل کر دی گئیں جو پولنگ اسٹیشنوں پر اعلان کردہ نتائج سے بالکل مختلف ہیں۔جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد بالآخر فارم اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے تو چھیڑ چھاڑ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میڈیا، حقوق انسانی کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف شور مچانے کے بعد ای سی پی نے فارم فوری طور پر ہٹا دیے۔ اس سے ادارے کے انتخابی جرائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ عمومی تاثر ہے کہ اس نے مینڈیٹ چوری کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے ۔

ملک میں انتخابات کو ہائی جیک کرنے کی گھناؤنی تاریخ نہ صرف طول پکڑ چکی ہے بلکہ یہ اس سطح پر گر گئی ہے جہاں آئین، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات کے پرزے اُڑ گئے ہیں۔ یہ بات اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ انتخابات سے پہلے مہینوں تک غیر آئینی اور غیر قانونی حکومتیں ریاست کے معاملات چلاتی رہی ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت ، چنانچہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات باقی ہیں ۔ مناسب وقت پر اس معاملے کو عدالتوں میں اٹھایا جاسکتا ہے ۔

ریاست کے جسم پر متعدد چرکے لگے ہیں، جن سے بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔ اسے مسیحائی کی ضرورت ہے ۔ لیکن وہ لوگ جو دوا دے سکتے تھے وہ سب زخموں کا سبب بنے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی اڑے رہتے ہیں کہ چیزیں صرف اسی راستے پر ہی چلیں گی جو مصائب کی اصل وجہ ہے۔ یہ عالم ہے کہ مریض انتہائی کرب کے عالم میں منتظر ہے ،معالج کا کچھ اتا پتا ہی نہیں ۔

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی اس گہری دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی ہے اور کیا ہم کبھی اپنے مسائل کو آئین کی کتاب میں موجود چیزوں کے مطابق باوقار طریقے سے حل کر سکیں گے ؟ہاں، ہم کر سکتے ہیںلیکن اس کی ایک شرط ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی بغیر کسی استثنا کے سب پر لاگو ہوتی ہے۔ اور جو لوگ حد سے تجاوز کرتے ہیں، خواہ ان کی حیثیت یا عہدہ کچھ بھی ہو، خواہ وہ کتنی ہی طاقت کیوں نہ رکھتے ہوں، آئین اور قانون سے سرتابی پر باز پرس ہوگی ۔ یہ ایک خواہش ہے جس کا اکثر خواب دیکھا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ کچھ لوگ اس نظام سے زیادہ طاقتور بن بیٹھتے ہیں جس کی پیروی کرنی چاہیے، جس کے آگے انھیں سرتسلیم خم کرنا چاہیے ۔ ان کا تعلق فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے قبیلے سے ہے جنھوں نے طویل عرصے سے نظام کو ہائی جیک کرتے ہوئے اسے اپنے ناجائز فائدے کیلئے استعمال کیا۔ اس طرح پچھلے دو سال سے آئین اور قانون کی حکمرانی کو ایک بدعنوان گروہ کو اقتدار کی مسند پر بٹھا کر آئین اور قانون کو بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔

اس بدعنوان ٹولے کیلئے ایسا پہلی بار نہیں کیا گیا۔ وہ پہلے بھی وہاں موجود رہے ہیں اور ہر بار انھوں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا ہے۔ لوٹ مار کرنے والا ٹولہ ہے جو اپنے شکار کی تلاش میں ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ منافع بخش اور سب سے زیادہ اطمینان بخش شکار ہے جس پر ان کی نظریں جمی ہیں۔ اور یہاں یہ ان کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ وہ گوشت کے آخری ٹکڑے کو نوچ کھائیں جو اب بھی اس کے جسم پر باقی رہ گیا ہے۔

ماضی میں بھی انتخابات چوری ہوتے رہے اور عوام کی مرضی کے خلاف حکومتیں بنیں۔ لیکن اس بار مینڈیٹ کی آدھی رات کی زبردست چوری کے مضمرات اچھے نہیں۔ غیر آئینی اور غیر قانونی حرکت کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ ناراض ہیں۔ جس کو انھوں نے ووٹ نہیں دیا، وہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ پانی کی بوندوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے طاقتور ہاتھوں نے ایک سیلاب کو دعوت دے دی ہے۔ متناقضہ یہ ہے کہ جسے انھوں نے گھناؤنا ڈرامہ رچاکر بے دخل کرنے کی کوشش کی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید طاقتور ہوتا چلا جارہا ہے۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین