پچھلی مرتبہ آصف علی زرداری کی صدارت کا سبب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بنی تھی۔ اس مرتبہ قیدی نمبر آٹھ سو چار بنا ہے۔ البتہ پچھلی مرتبہ انہیں صدر ہائوس صدر مملکت کے پورے اختیار کے ساتھ ملا تھا۔ اس مرتبہ صرف صدر ہائوس ملا ہے۔ پچھلی مرتبہ وہ اتنے طاقتور تھے کہ صدر کے اختیار خود انہوں نے وزیر اعظم کو سونپ دئیے تھے مگروہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے، راجہ پرویز اشرف تھے۔ یعنی جن پر وہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کر سکتے تھے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف کے برادر اصغر شہباز شریف ہیں۔ پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات کے سامنے بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور پیر پگاڑا نے بائیکاٹ کیا ہے کہ صدر فارم 47 کے ووٹوں سے بنایا جا رہا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے روکنے کے باوجود سنی اتحاد کونسل سے چھینی گئی نشستوں پر بنائے گئے ایم این ایز سے حلف اٹھوا لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی احتجاج کا اعلان کر چکی ہے۔ جے یو آئی اور جی ڈی اے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل ہونے کا عندیہ دے چکی ہیں۔ مجھے لگتا ہے اگر عدالت عالیہ نے فارم 45 کے حق میں فیصلہ سنا دیا تو صدر پاکستان کا انتخاب بھی متنازع قرار پا جائے گا۔
اس وقت مریم نواز اور شہباز شریف کو نواز شریف نے پہلی ذمہ داری یہی سونپی ہے کہ لوگوں سے روابط بڑھائیں۔ دوبارہ عوام کا دل جیتنے کی کوشش کریں۔ آصف علی زرداری بھی پنجاب میں پھر سے پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کیلئے صدر ہائوس میں ڈیرہ ڈال چکے ہیں مگر دونوں پارٹیاں انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔ اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ کیسے اقتدار میں آئی ہیں۔ دونوں کو علم ہے پی ٹی آئی کو جتنا دبایا جائے گا وہ اتنی ابھر کر آئے گی۔ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے ساتھ حالات ٹھیک ہو جائیں مگر دونوں مجبور ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان انتخابات میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پتہ چل گیا ہے کہ قوم اس کے ساتھ ہے۔ قوم نے انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کا ورکر پوری طرح چارج ہے۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مجبوری کے عالم میں ان سے ٹکرانے کی کوشش کی تو ان کے عوامی خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ فارم 47والی حکومت کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں۔ یہ حکومت اگر دو ہزار چوبیس نکال جائے تو بہت بڑی بات ہو گی۔ لوگ اپنے ووٹ کی عزت کیلئے سڑکوں پر کسی وقت بھی نکل سکتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں پیپلز پارٹی نےپیر پگاڑا کےمریدین کہا تھا جو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔ وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صرف رمضان کا مہینہ گزرنے کا انتظار کر رہےہیں اور پی ٹی آئی رمضان میں احتجاجی افطاریوں اور سحریوں کے متعلق سوچ رہی ہے اور ہمارا مسئلہ ملک کی معیشت ہے۔ غریب بچوں سمیت خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ایسی صورتحال میں بالکل ناممکن ہو جائے گا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے۔ مذاکرات کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور ملک کو آگے بڑھایا جائے۔ ملک ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اسے نکالنا اشد ضروری ہے اور یہ کام سب سے بہتر انداز میں وہی کر سکتے ہیں جن کے پاس اختیار ہے۔ پاکستانی قوم کے تقریباً دو سال ضائع ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کو دل بڑا کرکے اس مقصد کیلئے آگے آنا چاہئے۔ آصف علی زرداری ملک کے صدر بن چکے ہیں اب ان پر فرض ہے کہ قوم کی رائے کا خیال کریں۔ عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں۔ ظلم اور زیادتی کی فضا کو ختم ہونا چاہئے۔ عدالتوں کو اپنی عزت بحال کرنی چاہیے۔ ذاتی پسند و نا پسند کے مطابق کیے گئے فیصلوں کو دوبارہ دیکھنا چاہئے۔ صحافیوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہئے۔ سچائی کی آواز سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔ عمران ریاض اور اسد طور کی مقبولیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستانیوں کا مزاج یہی ہے کہ وہ ہر اس شخص کے ساتھ ہوتے ہیں جسے مظلوم سمجھتے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا تو پاکستانی قوم اس کی بیٹی کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو قوم نے آصف علی زرداری کو صدر پاکستان بنا لیا تھا۔ جب عمران خان کو سزائیں سنائی گئیں۔ پی ٹی آئی سے اس کا نشان تک چھین لیا گیا تو پوری قوم نے کھمبوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دئیے۔ قوم کا مزاج سمجھنے کی کوشش کیجئے اور ملک کو آگے بڑھائیے وگرنہ وقت کسی کو معاف نہیں کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو آج قانونی طور پر شہید ثابت ہو چکا ہے۔ آنے والے کل میں اس کے قاتلوں کا تعین بھی قانون کو کرنا پڑے گا۔
ایمریجنسی یا مارشل لا جیسی لاقانونیت ملک کے مستقبل کو اور تاریک کر دے گی۔ ہمارے پاس عدل و انصاف کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں آئین کی حاکمیت کو تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔ ہمیں قانون کی عمل داری یقینی بنانی ہی پڑے گی۔ جب تک سب کیلئے قانون برابر نہیں ہوگا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جب تک عدالتیں انصاف نہیں دیں گی اس وقت تک ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوگی۔
ہماری موجودہ صورتحال سے امریکہ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر وہاں حکومت تبدیلی ہوتی ہے اور یہاں حالات بدلتے ہیں تو پھر طے ہوگیا کہ ہم ایک آزاد قوم نہیں ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو فوری طور پر ایک میز پر بیٹھ جانا چاہئے اس کے سوا مجھے توکوئی اور حل دکھائی نہیں دیتا۔