• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24ویں وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں انتخابات کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف 201ووٹ حاصل کر کے وزیر اعظم بن گئے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب نے 92ووٹ حاصل کئے ہیں ۔ ایوان میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ ق نے شہباز شریف کی حمایت کی۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے حمایت کی۔

پاکستان میں لولی، لنگڑی جمہوریت جس الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آ رہی ہے، دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ یہ کامیاب و کامران ہو ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے ہوا تھا، اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور مسلم لیگ ن بھی اس حکومت میں شامل ہوئی تھی لیکن بعد میں انہوں نے وزارتیں چھوڑ دی تھیں اور حکومت کا ساتھ تو دیتے رہے تھے، لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کابینہ میں پوزیشن لینے سے انکار کیا ہے، لیکن ساتھ ہی حکومت کا ساتھ دینے کا بھی اقرار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے واضح پالیسی اپنائی ہے کہ حکومت کو ووٹ دئیے جائیں گے اور ان کا ساتھ بھی دیا جائے گا اور ان کی مخالفت نہیں کی جائے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے لئے ایک الگ جگہ بھی قائم رکھی ہے۔ تمام تر تحفظات اور اعتراضات کے باوجود جمہوریت اپنا راستہ بنا رہی ہے، سیاست سڑک سے پارلیمنٹ میں منتقل ہو چکی ہے اور یہ ملک کیلئے ایک خوش آئند امر ہے۔ وزیر اعظم کا انتخاب ہو چکا، آئندہ ایک ہفتے میں کابینہ کی تشکیل اور صدر پاکستان کے انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کی سب سے مشکل حکومت ہو گی، جو حکمران جماعت کی سیاست کا ہی فیصلہ نہیں کرے گی، بلکہ شاید جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ بھی اس کی کارکردگی سے مشروط ہو گا۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت کے پاس کوئی گریس پیریڈ نہیں، اس کا امتحان اسی دن سے شروع ہو چکا جب اسمبلی وجود میں آئی تھی۔ پوری قوم کی نظریں ایوان اقتدار پر لگی ہیں، نا امیدی اپنی انتہا پر ہے اور قوم کسی وقفے کے بغیر ریلیف چاہتی ہے۔ مہنگائی نے پوری قوم کو بے حال کر رکھا ہے، عام آدمی کیلئے اپنے بچوں کو 2وقت کی روٹی فراہم کرنا بھی مشکل ہے، ملک کی معاشی آزادی اور خود مختاری گروی رکھی جا چکی ہے۔ ٹیکس سے لے کر اشیاء کی قیمتوں تک آئی ایم ایف کے حکم کے بغیر ایک پیسے کا بھی فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ امن و امان دگرگوں ہے، دہشت گرد ایک بار پھر ملکی سلامتی کو چیلنج کرتے پائے جا رہے ہیں۔ حالات کی سختی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت جب وزیر اعظم کے انتخاب کی تیاریاں تھیں، عالمی ساہوکار آئی ایم ایف کی جانب سے قوم کی گردن پر پھندا مزید سخت کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جا چکا تھا، جس میں حکم دیا گیا کہ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے، ٹیکس سلیب کی تعداد 7سے کم کر کے 4کی جائے۔ حکومت کے پاس پرانی حکومت پر الزام تراشی سمیت کوئی بہانہ یا ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ہے، اسے عوامی توقعات اور ملکی مسائل کے حل کی منزل پر اس حال میں پہنچنا ہے کہ انتہائی متحرک اپوزیشن قدم قدم پر راستہ روکے گی، رکاوٹیں کھڑی کرے گی جو کہ اس کا جمہوری حق ہے اور دوسری جانب حکومتی اتحادیوں کے مطالبات حکمرانوں کے فہم و تدبر اور حوصلوں کو مسلسل آزمائش میں ڈالیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل، مشکلات اور ناموافق حالات کے باوجود اگر حکمران خلوص نیت سے چاہیں تو ملکی مسائل دستیاب وسائل کے اندر ہ کر حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

اللّٰہ کرے کہ شہباز شریف کی حکومت کامیاب ہو اور پنجاب سے نکل کر پورے ملک کیلئے کام کرے اور پورے ملک کی ترقی پر توجہ دے کیونکہ یہ موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا فوکس پنجاب رہا ہے اور اس کی مثال موٹروے پروجیکٹ ہے جو اصولی طور پر بندرگاہ سے شروع کی جانی چاہیے تھی لیکن ملک کے وسط سے اسلام آباد اور لاہور کے درمیان شروع کی گئی اور اس طرح سے شاید وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے جوکہ ہونے چاہئیں تھے، اب جا کر اتنے برسوں کے بعد موٹروے کی ایک شکل نظر آ رہی ہے جو ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل رہی ہے، لیکن اب بھی اس تمام منصوبے میں بلوچستان غائب ہے اور اس صورتحال کو اب تبدیل ہونا چاہیے، ایک طرف سکھر سے اور دوسری جانب ملتان سے بلوچستان کو بھی موٹروے کے ساتھ لنک کیا جانا چاہیے، بہرحال یہ تو ماننا پڑے گا کہ موٹر وے نے ملک میں ٹرانسپورٹ کلچر کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور اب اس حوالے سے نئی نئی جدتیں سامنے آرہی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کو موٹر وے کے ساتھ لنک اپ کیا جائے کیونکہ اگر پورے ملک کواس کے ساتھ لنک اپ کیا جائے گا تو ہی ملک مزید متحد ہو گا اور معیشت بھی بہتر ہو گی۔ کینیڈا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کو صرف اور صرف اس کی ریلوے نے متحد رکھا ہوا ہے، اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کسی بھی ملک کو مواصلات کے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس کے عوام کے درمیان باہمی اتحاد میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ موٹر وے کے دائرہ کو پھیلانے کی ضرورت ہے، ریل کے نظام کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو جوڑنے کی ضرورت ہے اور سب کو ساتھ لے کرچلنے کی ضرورت ہے اسی میں ملک کی ترقی پنہا ں ہے۔

تازہ ترین