کیا ہم غزہ بھول گئے؟
یوں لگتا ہے عالم اسلام، عالم بھی بھول گیا، اسلام بھی بھول گیا۔ غزہ میں مسلمانوں کاقتل عام جس تیزی سے رواں دواں ہے وہ کسی صیہونی مشن کو پورا کرنے کا سفر ہے اور اسلامی دنیا اس طویل سازش سے بخوبی آگاہ ہے مگر ذاتی مفاد کی خاطر فلسطین کو آزاد کرانے کے بجائے محدود، محفوظ بیانات پر ہی اکتفا کو کافی سمجھتی ہے۔ صلیبی جنگوں کوبھی بھول گئے، یہ بھی ہم نہ جان سکے کہ عالم اسلام کو گونا گوں مسائل و مصائب میں الجھا کر عالمی اسلامی مسائل کے حل سے بہت دور لے جایا گیا اور غزہ، کشمیر، عراق، لیبیا، بیروت اور دیگر کئی اسلامی ممالک کو پس پشت ڈال دیا گیا، البتہ مسلم ملکوں کو اپنا اسلحہ فروخت کرنے کی منڈی بنایا گیا، اسلام دشمن دنیا نے ایک مربوط پالیسی کے تحت غزہ میں جنگ چھیڑ کر مسلم دنیا کے دبدبے کو خاک میں ملادیا، اب بھی وقت ہے کہ بالخصوص عرب ممالک غزہ کے مسئلے کو حل کرنے پر یکجا ہو جائیں، یہود و نصاریٰ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ موثر ذریعہ ہے، اینٹی اسلامک مشن زور پکڑتا جا رہا ہے اگر اس طوفان کا سدباب نہ کیا گیا تو اسلامی دنیا بتدریج غیر اسلامی دنیا کے زیر اثر آتی جائے گی۔ مسلم دنیا کو اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہوگا جو ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے، مسلم اپالوجیٹک پالیسی اسے اپنے مقام و مرتبے سے محروم کر دے گی، یہ استحقاق کا جہاں ہے ہر انسان کو جائز حق حاصل ہے مگر یہ طرز حیات ختم ہوتا جا رہا ہے، غزہ خونریزی پر خاموشی ایک خاموش بربادی لا سکتی ہے، جس کا بہت بڑا اثر غزہ سے شروع ہو چکا ہے مسلمان بقائے باہمی کے ساتھ رہنا چاہتےہیں مگر انداز جہاں بتا رہا ہے کہ اسے ایسا کرنے نہیں دیا جار ہا ، اگر مسلم امہ نے وقت کی چال کو بروقت نہ جانا تو مٹناآسان اور نشاۃ ثانیہ کا حصول بہت مشکل ہے، یہ جو ہم اقوام کا ذکر کرتے ہیں غلط ہے قومیں فقط دو ہیں حق اور باطل، حق کو باطل مٹانے کی پوری کوشش کر رہا ہے حق بیدار ہو اور باطل کو سیدھا راستہ دکھائے۔
٭٭٭٭
گرتی معیشت کا موثر علاج
گرتی معیشت کا موثر علاج سیرت طیبہ میں موجود یہ حدیث مبارک ہے: خدشہ ہے کمزور معیشت کفرسے جا ملے۔ اب تو ہم روٹی پانی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو یہ خطرہ ہے کہ ایمان سے بھی جائیں، دولت کی غلط تقسیم نے ہمیں نہ جانے کس کس دائرے سے باہر کردیا ہے، معیشت کمزور ہو تو ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے، اس وقت کاروباری دنیا میں جس قدر کھوٹ اسلامی دنیا میں ہوتا ہے غیر اسلامی دنیا میں نہیں ہوتا، کیونکہ اس نےسیرت طیبہ کے بیشتر اصول و قوانین پر عمل کیا ہے اور ہم نے اپنے دین کے بجائے غیروں کے غیر شرعی کاموں پر دھڑا دھڑ عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ترقی کاسارا سامان عطا کیا، ہم نے اسے کام میں لانے کی بجائے دوسروں کے کام میں لا کر درآمد کیا اور خود کو خود ہی لوٹتے رہے، اپنی نعمتوں کو ایجادات کی دنیا سے ہم کنار نہ کیا، ہم جوبھی لکھ رہے ہیں ہم سب کو معلوم ہے اس کے باوجود اپنی سرزمین میں پوشیدہ سر کو نکال کر کچھ ایجاد نہ کیا اور یوں علم و دانش سے لبریز اسلامی دنیا آج غیر کی محتاج ہے، اپنی حکومت سازی کو دیکھیں کہ کتنے ٹکڑے جوڑ کر غیر مستحکم حکومت جوڑی، ذاتی مفادات کی بنیاد پر اینٹ روڑا اکٹھا کرکے بھان متی کا کنبہ جوڑا، قرضوں کی سوئیوں سے اپنی گدڑیاں سی کر ہم خود کو قوم کہتے ہیں۔ ملک کا کونہ کونہ چھان ماریں کوئی خالص چیز دستیاب نہیں،اگر صنعت و حرفت کا یہ عالم ہے تو گنجی دھوئے گی کیا نچوڑے گی کیا، مغرب میں جو اشیا تیار ہوتی ہیں آپ آنکھیں بند کرکے خرید سکتے ہیں اور اپنے ہاں سرسوں کا تیل خالص نہیں ملتا، جب تک ایمانداری سے کام نہ ہوگا ہم اپنے زخم چاٹتے رہیں گے۔ اگر حکومت بھی خالص نہ ہو تو معیشت کیا خاک بڑھے گی۔
٭٭٭٭
ہے گرم بہت بازار سیاست
سیاست کا مقصد فقط ملک کے نظام کو صحیح نظام پر چلانا ہے، اور اگر اس کے ذریعے گھر کا نظم درست رکھنا ہے تو یہ بازار سیاست ہے، آپ نے نہیں دیکھا کہ آزاد امیدوار کھمبی کی طرح اگنے لگا ہے کیونکہ یہ سیاست کے ساتھ دھاگہ باندھ کر پورا گھر اور کئی دیگر کاروبار بھی محفوظ انداز میں چلا سکتا ہے، اسی شفاف غیر شفاف سیاست میں بھی راتوں رات امیر ہونے کے امکانات روشن ہیں، اس لئے اب پیسہ لگائو اور شفاف ووٹ خرید لو۔ برا نہ منائیں 76 برس میں ووٹ، سیاست، جمہوریت، ارکان وغیرہ تمام سامانِ سیاست اصلی نہ بنا سکے، جمہوریت لائی گئی مگر اس نے بچے جمہور ے دیئے ، جمہوریت نام کی چیز نہ لائی، اس وقت بھی دیکھو حکومت سازی جاری ہے حکومت جامد ہے۔ صاف شفاف جمہوریت نہ پاکر لاکھوں باہر چلے گئے، سیاست ضرور ہمارے ہاں آئی مگر اس کی بغل میں جمہوریت نہ تھی۔ بے روزگار نوجوان اب فکر مند نہ ہوں بازار سیاست جگہ جگہ لگے ہیں 3ماہ میں ٹریننگ اور قیمے والے نان، پھر اس کے بعد امکانات ٹکٹ بشرطیکہ اس کا کوئی امیرترین رشتہ دار ہو۔ اگر بڑے بڑے کامیاب سیاستدانوں کا شجرہ نسب معلوم کریں تو شروع کے ناموں میں مایوس کن نام ہوںگے۔ ایک مزے کی چیز ہماری سیاست میں ’’بازار سیاسی پارٹیاں ہے‘‘ جبکہ بڑی بڑی سپرپاورز میں بہت کم سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں شاید اس لئے کہ یہاں جمہوریت بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ بہرحال ہم ہر چیز کا برے دنوں میں بازار ضرور لگاتے ہیں۔
٭٭٭٭
اخلاقیات
O... وزیر اعظم شہباز کا پہلا دورہ پشاور، وزیر اعلیٰ نے استقبال کیا نہ ہی گورنر ہائوس کی تقریب میں شرکت کی۔
کیا یہ پی کے کی جانب سے مظاہرہ اخلاقیات تھا۔
O... حکومتیں بن گئیں، دورے شروع ہو گئے، کام نظر نہیں آئے، مگر عنقریب نظر بھی آ جائیں گے۔ اجتماعی دعا کرائی جائے کہ معیشت کے بھنور سے حکومت سرخرو نکلے اور عوام کی جیبوں میں ابھار آئے۔
٭٭٭٭