• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، اندرونی حالات اتنے مخدوش ہیں کہ کسی وقت بھی کسی طرف سے آگ بھڑ ک سکتی ہے اور سرحدوں کی صورتحال یہ ہے کہ پہلے بھارت اور افغانستان سے تعلقات کشیدہ تھے اب ایران سے بھی ہو چکے ہیں اگر یہ سب کچھ امریکہ کے سہارے اور اشارے پر کیا جا رہا ہے تو پھر سمجھ لیا جائے کہ یہ اس بحری بیڑے کے لارے کی طرح ہو گا جس کا مزہ ہم پہلےبھی ایک بار چکھ چکے ہیں۔ اور اگر چین سے مدد کی امید رکھتے ہیں تو چین ہمارے لیے کبھی ایران کے خلاف سٹینڈ نہیں لے گا کیونکہ اس وقت ہماری نسبت ایران کے ساتھ چین کے تعلقات زیادہ بہتر نظر آتے ہیں اور اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور افغانستان ہماری سلامتی پر شب خون مارنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ بلوچستان کی صورتحال بہت زیادہ بگڑی ہو ئی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ملک کو حقیقی استحکام کی طرف نہیں لے جایا جا سکتا ۔ پاکستان میں اندرونی استحکام یقینی نہ بنایا جا سکا تو ملک خارجہ امور کے میدان میں بھی کمزور رہے گا ۔ عالمی اور علاقائی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاکستان ان تبدیلیوں کے اثرات کی زدمیں ہے ملکی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور بدحال معیشت نے پاکستان کیلئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

پاکستان پر فوری اثرانداز ہونے والے حالات میں چین اور امریکا کی بڑھتی ہوئی مخاصمت ،افغانستان میں امن وامان کی صورتحال بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی صورتحال بہت اہم ہیں۔ ایران میں بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے دہشت گرد گروہوں کے متعدد ٹھکانے موجود ہیں جو آئے روز پاک ایران بارڈر کراس کرکے پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے کئی اہم سرغنہ اپنے خاندانوں کے ساتھ وہاںپر تعیش اور آرام دہ زندگی گزاررہے ہیں ۔ پاکستان اور ایران میں 74سالوں سے گہری دوستی چلی آ رہی ہے۔ اس دوستی کا باقاعدہ معاہدہ 1950ء میں ہوا تھا جس کے بعد متعدد مواقع پر یہ دونوں اسلامی ملک اپنی دوستی نبھاتے رہے ہیں۔ پاکستان اورایران کے مابین 950کلو میڑ طویل سرحد ہونے کے باوجود کوئی سرحدی تنازع موجود نہیں ہے لیکن اسی سرحدی پٹی پر دونوں طرف موجود علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں دونوں ممالک کیلئے دردسربنتی ہیں۔ پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف کے علاقے دہشت گرد وں کی ’’سیف ہیون‘‘ ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائی کرکے ایرانی سرحدی علاقے میں چھپ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے لواحقین ان کو لاپتہ قرار دے کر الٹا حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ ساتھ غیر آباد علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے دونوں ملکوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسلح گروہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور ایران میں امن وامان قائم نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث دونوں ملکوں کیلئے عالمی سطح پر مسائل پیداہوئے ہیں جبکہ سرحدی علاقے مسلسل جہالت اور مستقل بے روزگاری کا شکار ہیں۔ یہ تنظیمیں اسمگلنگ سے دولت اکٹھی کر کے دہشت گردانہ ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اشیائے خورو نوش، پیٹرولیم مصنوعات ،سیمنٹ، سرامک ٹائلز اور دیگر اشیا غیر قانونی طور پر پاکستان میں آ رہی ہیں۔ اس طرح پاکستان سے ایران جا رہی ہیں۔ اس غیر قانونی کاروبار سے پاکستانی معیشت عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔

یہ خوش آئندہ صورت حال ہے کہ پاکستان نے ایران کی پیدا کردہ کشیدگی کے باوجود ابھی تک اسکے ساتھ تجارتی مراسم برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ عالمی قیادتیں بھی پاکستان ایران کشیدگی پر فکر مند نظر آتی ہیں۔ چین اور ترکی نے پاکستان اور ایران کے مابین کشید گی ختم کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ برطانیہ نے دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کیلئے کہا ہے۔ امریکی ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکہ نے ایران کوخبردار کیا ہے کہ اس کی جانب سے اس طرح کی اشتعال انگیزی ناقابل قبول ہے اور اسکے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ روس نے بھی پاکستان اور ایران پر تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ صورتحال میں مزید کشیدگی خطے کے امن واستحکام اور سلامتی میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے مترادف ہو گی۔

ایران کی پاکستان کے ساتھ پیدا کردہ کشیدگی یقیناً علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس لئے فہم و بصیرت کے ساتھ اس کشیدگی کے اسباب پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایران کے دل میں بھی امریکہ کی طرح یہ سودا سماگیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کیلئے کسی بھی ملک پر حملہ آور ہو سکتاہے تو پاکستان کو ایسی کسی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا مکمل حق حاصل ہے اس معاملہ میں کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین