• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانیال حسن چغتائی، لیّہ

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ جاری ہے۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے، جس کا انتظار بندۂ مومن سال بَھر کرتا ہے، لہٰذا اس کے استقبال کی بھی خُوب تیاری کی جانی چاہیے۔ جیسے ہمارے گھر کسی خاص مہمان کی آمد ہوتی ہے، تو اس کے استقبال کے لیے خصوصی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ گھر کو خُوب سجایا سنوارا جاتا ہے اوراپنی آرائش وزیبائش پر بھی خاص توجّہ دی جاتی ہے، پورے گھر میں خوشی کا سماں ہوتا ہے۔ 

نیز، مہمان کی تواضع کے لیے انواع و اقسام کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں، تو جب ایک عام فرد کے لیے اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے، تو ذرا سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے مہمان کا استقبال کس قدر بھرپور انداز سے کیا جانا چاہیے۔

ماہِ رمضان بڑی عظمت و بزرگی والا مہینہ ہے۔ اگر اس کی قدر و منزلت کا احساس اس کی آمد سے قبل ہی دل و دماغ میں راسخ کر لیا جائے، تو ماہِ صیام کے دوران غفلت، سُستی، بے اعتنائی، نا قدری، ناشُکری اور صیام و قیام سے بے رغبتی جیسے اوصاف رذیلہ پیدا ہی نہ ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم آمدِ رمضان سے قبل ہی اپنی نیتوں کو خالص کرلیں، خلوصِ دل سے اس ماہِ مقدّس سے کماحقہ مستفید ہونے کا عزمِ مصمّم کر یں، کیوں کہ اخلاص ہی در اصل دین کا لبِ لباب اور نچوڑ ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ہر کام اِخلاص کے ساتھ کرنے کا حُکم دیتا ہے۔ 

نیز، ماہِ مقدّس شروع ہونے سے قبل ہی دِلوں کو حسد، کینہ، خواہشاتِ نفس، عداوت، ناشُکری اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے جذبات سے پاک کرنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ ایسے دل میں کبھی بھی زُہد و تقویٰ اور اخلاص پیدا نہیں ہو سکتا، جب کہ دل کی صفائی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہو، تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر یہ بگڑ جائے، تو سارے جسم کا نظام ہی بگڑ جاتا ہے۔

ماہِ رمضان، دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ایک نعمتِ عظیم ہے۔ عام طور پر انسان کو حاصل شدہ نعمتوں کی اہمیت کا احساس کم ہی ہوتا ہے ۔وہ نہ ملنے والی نعمتوں سے متعلق سوچ کر ہی ہلکان ہوتا رہتا ہے۔ ذرا سوچیے، پچھلے رمضان المبارک میں کتنے ہی لوگ ہمارے ساتھ سحر و افطار کیا کرتے تھے، لیکن آج وہ اس دُنیا میں موجود نہیں۔ نیز، کتنے ہی لوگ مختلف وجوہ کی بنا پر ماہِ رمضان کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا، ایک مرتبہ پھر ماہِ رمضان جیسی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیجیے، کیوں کہ شُکر کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنی مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔ 

مشہور مثل ہے کہ ’’صبح کا بُھولا شام کو گھر لوٹ آئے، تو اسے بُھولا نہیں کہتے۔‘‘ ہم میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو اپنے ربّ کے دَر پر حاضری دینا فراموش کر چُکے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ معصیت میں ڈُوبے ان افراد کو رمضان المبارک کی صُورت اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑنے اور مضبوط کرنے کا ایک موقع پھر ملا ہے، لہٰذا توبہ استغفار اور انابت و رجوع میں تا خیر نہیں کرنی چاہیے اور اس ماہِ مبارک میں جی بَھر کے جنّت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

ماہِ رمضان سے بھرپور طریقے سے مستفید ہونے کے لیے اس کے خصائص و فضائل کا استحضار کیا جائے، تاکہ دل و دماغ میں اس کی اہمیت و مقام تازہ ہو جائے۔ اپنے آپ کو نفسیاتی و رُوحانی اعتبار سے تیار کیا جائے اور رمضان سے متعلق آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہؐ کا از سرِ نو مطالعہ کیا جائے، کیوں کہ بہت سے لوگوں کو ماہِ رمضان سے متعلقہ مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔ 

ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزے، سحر و افطار، نمازِ تراویح، زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور اعتکاف وغیرہ کے مسائل سے متعلق احکامات کا مطالعہ کریں۔ نیز، دُعاؤں کو اپنا معمول بنائیں۔ یاد رہے کہ توفیقِ الہٰی کے بغیر کوئی بھی کام ممکن نہیں، اس لیے اللہ تعالی سے نیک اعمال کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے اور دُعا کی توفیق بھی اللہ تعالی اُس شخص کو دیتا ہے کہ جس پر اپنی رحمت کے دروازے کھولنا چاہتا ہے۔

رمضان، نیکیوں کا موسمِ بہار ہے اور اللہ تعالی اس مہینےروزہ داروں کو متعدّد طریقوں سے بھلائی سے نوازتا ہے۔ ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں ترجمے کے ساتھ قرآنِ پاک کامطالعہ، پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات، صدقہ خیرات، ذکر اذکار، مناجات، طلبِ عفو و در گزر، قیام اللیل، روزے کے مسائل کی معرفت، دروس و بیانات میں شرکت کا اہتمام اور اعمالِ صالحہ اور زُہد و تقویٰ کے لیے محنت و مشقّت لازم ٹھہرتی ہے۔ 

یاد رہے کہ روزے کی حالت میں نیک کام کرنا اضافۂ حسنات کا باعث ہے اور اس ماہ میں معمولی نیکی بھی گراں قدر ہوتی ہے۔ لہٰذا ،ماہِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کے لیے وضو کے دوران مسواک، مسجد میں پہنچ کر اذان کا انتظارکرنے، اذان اور اقامت کے درمیان اللہ تعالیٰ سے دُعا و مناجات، تراویح میں سبقت کے حصول، روزے داروں کے لیے سحر و افطار کے بندو بست، دروس میں شرکت اور لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ماہِ رمضان کے احترام کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم گناہوں سے باز آجائیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اس ماہ ایک طرف تو نیکیاں کرتے ہیں ،تو دوسری طرف گناہوں سے بھی باز نہیں آتے۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ نیکیاں، بُرائی کے سمندر میں ڈُوبتی چلی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر رمضان میں کی گئی نیکیوں کو بچانا ہے، تو برائیوں سے اجتناب برتنا ہوگا۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے، ’’کہہ دیجیے کہ تم خوشی یا نا خوشی کسی بھی طرح خرچ کرو، قبول تو ہر گز نہیں کیا جائے گا، یقیناً تم فاسق لوگ ہو۔ ‘‘(التوبۃ 53:) اس آیتِ مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالی گناہوں کے سبب صدقے کو بھی قبول نہیں فرماتا، تو پھر سوچیے کہ اگر ہم نیکیوں کے ساتھ بُرائیاں بھی کرتے رہیں، تو ایسی نیکیوں کی بھلا اللہ کو کیا ضرورت ہے۔

سو،رمضان المبارک کے قیمتی لمحات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیےبھرپور منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ غیر ضروری امور اور اسفار کو مقدم یا مؤخر کردیا جائے۔ دُنیاوی کاموں کے لیے تو ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں، لیکن ایسے خوش بخت لوگ کم ہی ہوتے ہیں کہ جو دینی امور کی بجا آوری کے لیے بھی باقاعدہ پلاننگ کرتے ہیں۔ لہٰذا، رمضان المبارک کا باقاعدہ نظام الاوقات مرتّب کرنا چاہیے اور اس ماہِ مبارک کو قرآن اور قرآنی علوم کے لیے خاص کیا جانا چاہیے۔ 

یاد رہے کہ یہ نام نہاد سوشل میڈیا گویا خرافات کا مجموعہ ہے، جب کہ بعض ٹی وی چینلز کی ’’رمضان نشریات‘‘ بھی موسیقی، کھیل تماشے، مخلوط اجتماعات وغیرہ پر مبنی ہونے کے سبب ماہِ رمضان کی اصل رُوح متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا، ان سے ہر ممکن حد تک اجتناب برتیں۔ ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں ہر مسلمان نیکیوں میں سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے اردگرد کتنے ہی ایسے لوگ بستے ہیں کہ جنہیں سحر و افطار کے لیے سامان میسّر نہیں ہوتا، تو یہ ہماری ذمّے داری بنتی ہے کہ ہم ایسے نادار ، مستحق افراد کو کم از کم اس ماہ راشن مہیا کریں۔

ہماری زندگی میں کتنے رمضان آئے اور اللہ جانے مزید کتنے آئیں گے، مگر اس بار اپنے اندر حقیقی تبدیلی لانی کی کوشش کریں اور یہ تبدیلی صرف رمضان کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جو ’’رمضان کے نمازی‘‘ ہوتے ہیں اور ماہِ صیام رخصت ہوتے ہی نہ صرف نماز بلکہ اللہ ہی سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ یہ تبدیلی دائمی ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی موت تک کے لیے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت) آ جائے۔‘‘ (سورۃ الحجر 99:)