• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانونی جواز سے محروم نئی حکومت کسی بھی طویل المدت حکمت عملی کے ذریعے ملک کو درپیش پریشان کن مسائل حل نہیں کر سکتی جن کا پاکستان کو ان نازک وقتوں میں سامنا ہے ۔ اپنی من مرضی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے حکومت وقت کے حالیہ اعلانات انتہائی بیمار سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ۔عوامی مینڈیٹ سے محروم، یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اُن کے پاس ایسے اقدامات کے لیے عوام کا اعتماد نہیں ہے۔

اب یہ نہیں کہ لوگ صرف نتائج قبول کرنے سے گریزاں ہیں ، وہ غصے میں ہیں اور اپنا مینڈیٹ واپس لینے کی جدوجہد کے لیے کمر بستہ ہیں تاکہ انھیں اقتدار سونپ سکیں جنھیں انھوں نے ووٹ دیے تھے ۔ اس میں ممکنہ تشدد کی نوبت بھی آسکتی ہے ۔ اس مرحلے پر اس صورت حال کو ٹالنا ممکن ہے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ،ا ور موقف میں مزید سختی آنے کے بعد اس سے نمٹنا ناممکن ہوجائے گا۔ بظاہر صورت حال کو خاطر میں نہ لانے والی جماعتوں، جنھوں نے غیر آئینی اورغیر قانونی حکومت بنائی ہے ، یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انتخابات چرائے گئے تھے ،ا ور اب مزید آگے بڑھنے سے پہلے ان کی تلافی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس دوران نہ صرف عمران خان کی موجودگی بلکہ ان کی جیل کی کوٹھری سے بیانیے کی قیادت کرنے کی خداداد صلاحیت نے ارباب اختیار کو پریشان کررکھا ہے ۔ میڈیا پر ان کی تصویر اور اُن کے بیانات پرطویل عرصے سے پابندی لگائے رکھنے کے بعد اب انھوں نے دو ہفتوں کے لیے وکلا سمیت ہر کسی کو ان سے ملاقات کرنے سے روک دیا ہے ۔ اس اقدام نے عملی طور پر انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں عمران خان کی شخصیت سے کس قدر خوف ہے حالانکہ وہ غیر قانونی قید میں ہیں ۔ یہ ملک کو کشمکش سے نکالنے اور آگے لے جانے کا راستہ نہیں ۔ اس کی وجہ سے بحران شدید تر ہوتے ہوئے وہ صورت اختیار کرسکتا ہے جہاں سے پھر واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں ہوگا۔

سب سے اہم نئی حکومت کی قانونی حیثیت کا بحران ہے۔ جو لوگ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوئے وہ وہی ہیں جنھیں انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت شامل ہے۔ وہ ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکے، پھر بھی ان کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی گئی جس پر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا حیران ہے۔ قابل فہم بات یہ ہے کہ دولت مشترکہ اور یورپی یونین کی ٹیموں، جنھوں نے انتخابات کے انعقاد سے قبل کے حالات کا پتہ لگانے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا، نے سنگین بے ضابطگیوں کے حوالے سے انتہائی تنقیدی رپورٹیں لکھی ہیں۔ یہ رپورٹیںجب منظر عام پر آئیں گی تو مسائل کی پٹاری کھل جائے گی۔

وہ کون سی مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے صاحبان اختیار نے بدعنوان لوگوں کو اقتدار سونپ دیا؟ یہ معمہ مجھے اکثر پریشان کرتا ہے کیونکہ میں ایسی سوچ کا کوئی سراغ نہیں پا رہا ہوں جو کرپشن کو اقتدار اور فائدے کے لیے زندگی میں آگے بڑھنے کا ذریعہ تسلیم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک سنگین غلطی سرزد ہوچکی جو لوگوں پر مسلط کی جا رہی ہے لیکن لوگ اسے اپنی قسمت سمجھ کرقبول کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ اپنے پورے جذبے اور طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پورا سوشل میڈیا اس طاقتور دھارے پربات کرتا ہے ملک جس کی زد میں ہے ، اور جس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والا شور ہے کہ انتخابات چوری ہو گئے ہیں ۔ مطالبے میں شدت آتی جارہی ہے کہ اقتدار اُن افراد کے حوالے کیا جائے جو الیکشن جیتے تھے ۔ لیکن نتائج کے الٹ جانے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکب اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا انتخابی نتائج منسوخ کرکے دوبارہ عوام سے رجوع کیا جائے گا؟ ایسا ہونے کا امکان اور بھی کم ہے کیونکہ جن لوگوں نے خوفناک ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا ہے، انھیں یقین ہے کہ وہ صورت حال کو سنبھال لیں گے۔ تو اب ہمارے سامنے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟

مجھے ذرا کھل کر بات کرنے دو۔ اس جعل سازی نے اب تک نتائج نہیں دیے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں دے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بوجھ اتنا شدید ہوجائے گا جسے یہ لوگ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ ان کے دامن پر لگا وہ داغ ہے جو کبھی نہیں دھل سکے گا، اور نہ ہی اس کی موجودگی ان کے لیے قابل برداشت ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال میں تبدیل ہونے جا رہا ہے جس میں شدید بدامنی، حتیٰ کہ تشدد بھی شامل ہوسکتا ہے۔ لوگوں کا مزاج برہم ہورہا ہے۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے۔لوگ وہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہورہے ہیں جو ہمیں سنگین چیلنج میں دھکیل سکتا ہے ۔

اس صورت حال سے بچنے کا کیا راستہ ہے؟ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصنوعی اونچے پلیٹ فارم سے نیچے اتریں جس پر حکمرانوں نے خود کو اس امید پر رکھا ہے کہ وہ محفوظ رہیں گے۔ انھیں حقیقت کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ وہ زمین پر ہی ہے ۔ یہ ان کے ذہنوں میں بنا ہوا شیش محل نہیں ہے ۔ حقیقت بہت تکلیف دہ ہے ۔ حقیقت اس سوچ کو مہمیز دیتی ہے جوکئی نسلوں سے ستم زدہ عوام کو اپنے قدموں پر کھڑا کردے گی ۔ وقت آگیا ہے کہ اس حقیقت کو عوام کی نظروں سے دیکھیں جنھیں لوٹا گیا ہے ۔ عوام اختیار کے حق دار ہیں ۔ اور ان کا دن اُس وقت آئے گاجب وہ ان سے نجات حاصل کرلیں گے ۔ ارباب اختیار کے پا س ایک ہی آپشن بچا ہے کہ وہ اپنی انا کو دفن کریں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں جو ووٹ کی طاقت سے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے دعویدار ہیں ۔ اس سے کم کوئی چیز کام نہیں دے گی۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین