• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے بچپن میں وزیر آباد میں بہروپیئے بہت ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے یہ آئے روز بہروپ بدلتے کبھی ڈاکیہ بن کر آجاتے کبھی پولیس کا سپاہی بنتے اور کبھی پاگل کے روپ میں سامنے آتے۔ان کا بہروپ اتنا ’’ایگزیکٹ ‘‘ہوتا کہ لوگ دنگ رہ جاتے بیشتر اوقات یہ اپنی اصلیت خود ظاہر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے اپنے ہنر کی داد اور انعام وصول کرتے ۔

اپنے بچپن کے بعد اس عمر میں آکر یہ بہروپیئے ایک بار پھر دیکھے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں دیکھے ہیں، فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ وہ بہروپیئے مفلوک الحال تھے یہ بہروپیئے خاصے خوشحال ہیں وہ خود کو بہروپیا تسلیم کرتے تھے یہ بہروپیا کہلانے سے انکار ی ہیں۔میرا اشارہ سیاسی رہنمائوں کی طرف ہے میں ان دنوں روزانہ ٹی وی خبرنامہ میں ان کے جلسوں کی کوریج دیکھتا، یہ جس علاقے میں جاتے وہاں کے عام آدمی کا روپ دھار لیتے ۔چنانچہ یہ کبھی سندھی ٹوپی اور اجرک اوڑھے دکھائی دیتے ،کبھی پنجاب کی پگ ان کے سروں پر نظر آتی ،کبھی پٹھانوں کا کلاہ ان کے سر پر ہوتا اور کبھی انہوں نے بلوچی لباس زیب تن کیا ہوتا اس نوع کے روپ دھارنے کے بعد بہروپیوں کی طرح یہ بھی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے عوام سے اپنے ہنر کی داد اور انعام چاہتے، فرق صرف یہ ہے کہ یہ پیسے نہیں ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بہروپیئے پیسے مانگتے نہیں انتخاب جیتنے کے بعد پیسے بناتے ہیں۔

میں نے ان بہروپیوں کے بہت عجیب روپ دیکھے ہیں ان میں سے ایک پاکستان کا بادشاہ تھا مگر وہ سائیکل پر دفتر آتا تھا۔اس کا سائیکل پر دفتر آنا خود کو عوام میں سے ثابت کرنے کیلئے تھا مگر یہ بہروپ صرف دو دن جاری رہا کہ یہ کوئی آسان بہروپ نہیں تھا ایک اور بہروپیا ہمارا حکمران تھا وہ خود کو عوام میں سے ثابت کرنے کیلئے اپنے مخالفوں کو جلسہ عام میں ماں، بہن کی گالیاں دینے لگتا تھا ہماری تسبیح بدست خاتون حکمران نے عوام دوستی کے بہروپ میںعوام کا کچومر نکال دیا ۔ہم پر سوشلسٹ بہروپیئے اسلام پسند بہروپیئے اور جمہوری بہروپیئے حکومت کرتے چلے آئے ہیں یہ مختلف حلیوں میں عوام کے سامنے آتے ہیں ان کا دل بہلاتے ہیں اور پھر انعام کے طور پر ان کی بچی کھچی خوشیاں بھی سمیٹ کر لےجاتے ہیں۔

مجھے سیاسی بہروپیوں کا ایک بہروپ ہمیشہ بہت مضحکہ خیز لگا ہے اور وہ روپ اس وقت سامنے آتا ہے جب یہ کسی اعلیٰ مقصد یعنی اقتدار کے حصول کیلئے مشترکہ محاذ بناتے ہیں ۔اس قسم کے اتحادوں میں اندرونی بوالعجیبوں کے علاوہ ظاہری ہیئت کذائی اس وقت دیدنی ہوتی ہے جب یہ اتحاد کا مظاہرہ کرنے کیلئے کسی جلسہ عام میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کرتے ہیں اس وقت یہ رہنما اگر صرف بنیانوں میں ہوں تو یہ گمان گزرے کہ شاید یہ بغلیں صاف کرانے کیلئے کھڑے ہیں۔ان رہنمائوں میں کوئی بڑا ہوتا ہے کوئی چھوٹا ہوتا ہے کوئی موٹا ہوتا ہے چنانچہ ہاتھ فضا میں بلند کرتے وقت پست قامت کو اپنی ایڑھیوں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے بلند قامت تھوڑا سا جھک جاتا ہے اور بچارے موٹے لیڈر کی بہرصور ت جان پر بن جاتی ہے کہ اس کا سانس دھونکنی کی طر ح چلنے لگتا ہے ۔جعلی اتحاد کا یہ مظاہرہ بھی ان رہنمائوں کے بہروپ ہی کی ذیل میں آتا ہے کہ اندر سے تو یہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوتے ہیں، بہروپیئے پن کا یہ مظاہرہ باہمی اتحاد ظاہر کرنے کیلئے ان دنوں مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی کرتے ہیں جو ان کی ثقاہت نہیں سیاست زیادہ اہم ہے چنانچہ آپ وہ دن بھی آیا ہی سمجھیں جب ہمارے یہ علماء عیدمیلادالنبی ؐیا ایسے ہی کسی دوسرے متبرک تہوار پر ایک دوسرے کو اس طرح مبارکباد دیں گے جس طرح کرکٹ کے کھلاڑی اپنی جگہ سے اچھلتے ہوئے فضا میں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر مبارک دیتے ہیں ۔

میں نے کالم کے شروع میں بتایا تھا کہ میرے بچپن میں جو بہروپیئے ہوتے تھے انہیں عوام اکثر اوقات پہچان نہیں پاتے تھے چنانچہ یہ بہروپیئے اپنی اصلیت خود ظاہر کرتے جس پر عوام خوش ہو کر انہیں انعام دیتے۔ہمارے آج کے بہروپیئے اپنے فن میں اناڑی ہیں کیونکہ عوام اب انہیں ہر روپ میں پہچاننے لگے ہیں کیا ان کیلئے یہ بہتر نہیں کہ وہ یہ پیشہ ترک کردیں ویسے بھی کمپیٹیشن بہت ہو گیا ہے اب علماء، فضلاء ، دانشور ،صحافی ، ادیب بھی بہروپیئے بن گئے ہیں۔اتنے سارے بہروپیوں میں سیاسی بہروپیوں کی انفرادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔نیز اس کام میں دن بدن منافع بھی کم ہونے کا امکان ہے چنانچہ آئندہ جو حکومتیں بنیں گی اس کے ارکان بہت کم ’’مارجن‘‘ پر کرپشن کر سکیں گے کہ اس میں حصے دار کچھ زیادہ ہیں باقی یہ لوگ جو مناسب سمجھیں صائب مشورہ تو یہی تھا جو میں نے ابھی عرض کیا ہے!

تازہ ترین