بیالیس برس پہلے کا قصّہ ہے۔ 1982ء میں انسانوں کی بہتری کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم سے وابستہ کچھ افراد ایک اجلاس میں جمع ہوئے۔ یہ اجلاس ایک خاص دریافت کے ایک سو سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا تھا۔دراصل 24مارچ 1982ء کے دن ایک نیا جرثوما دریافت کیا گیا تھا، وہ جرثوما، جس سے تپِ دق کا مرض جنم لیتا ہے اور ہم جس تنظیم کی بات کر رہے ہیں، وہ تپِ دق اور سینے کے دیگر امراض کے خلاف کام کرتی ہے اور اس کا نام’’ Internationl Union Againts Tuberculosis lung Disease ‘‘ ہے۔
تنظیم کے مذکوہ اجلاس میں24مارچ کو’’ تپِ دق کا عالمی دن‘‘ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔یوں 24مارچ 1983ء کو پہلی مرتبہ تپِ دق کا عالمی دن منایا گیا۔ اُس دن کا مرکزی موضوع یا تھیم بڑی اہمیت کا حاصل تھا، یعنی’’تپِ دق کو شکست دیجیے ابھی اور ہمیشہ کے لیے۔‘‘پھر 24مارچ 1985ء سے یہ دن عالمی ادارۂ صحت کے تحت منانے کا آغاز ہوا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اِس سال تپِ دق کے عالمی دن کا مرکزی موضوع 1983ء کے موضوع کا تسلسل محسوس ہوتا ہے اور یہ ہے۔’’ہاں! ہم تپِ دق کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘
اِن دونوں موضوعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تپِ دق کے خلاف جدوجہد ہنوز جاری ہے اور اس جہدِ مسلسل کا خصوصی ہدف تیسری دنیا کے غریب اور نادار ممالک ہیں۔لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود، تپِ دق کا مرض ختم نہیں ہو رہا اور ہر سال لاکھوں افراد اِس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
تپِ دق کا جرثوما دریافت کرنے والے، ڈاکٹر رابرٹ کوچ کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ ایک معروف طبیب تھے اور اُن کا شمار وبائی امراض کے عظیم ماہرین میں ہوتا ہے۔ 24مارچ 1982ء کے دن اُنھوں نے بہت بڑا انکشاف کیا اور طبّی میدان میں ہونے والی جدوجہد کا رُخ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اُنہوں نے تپِ دق جیسے مُہلک مرض کی حقیقی وجہ بے نقاب کی اور تب دنیا کو پہلی مرتبہ پتا چلا کہ مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس (Mycobacterium Tuberculosis) نامی جرثومے کے ذریعے یہ مرض جنم لیتا ہے۔
اِسی عظیم خدمت کے اعتراف میں ڈاکٹر رابرٹ کوچ کو طب کا نوبیل انعام دیا گیا، کیوں کہ جس وقت وہ اپنی اہم تحقیق میں مصروف تھے، اُس زمانے میں تپِ دق کی حشرسامانیاں اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھیں اور مغربی ممالک میں ہلاک ہونے والا ہر ساتواں شخص اِس جان لیوا مرض کا شکار تھا۔ یہ خطرناک صُورتِ حال بیس ویں صدی تک برقرار رہی۔ یعنی دنیا کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ تپِ دق کا مرض کس طرح جنم لیتا ہے، مگر اس کا حتمی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔
ٹی بی کی بہت سی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مریض کھانسی کے ساتھ خون تھوکتا ہے، تو ایک زمانے میں خون تھوکنے کو موت کا استعارہ سمجھ لیا گیا اور ادب میں بھی اِسی پس منظر کے ساتھ یہ علامت برتی گئی۔ اردو کے صاحبِ طرز شاعر، جون ایلیا خون تھوکنے کی علامت کو اپنے ڈھنگ سے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں؎ ’’رنگ ہی کیا تِرے سنورنے کا…ہم لہو تھوک کر سنورتے ہیں۔‘‘ایک اور شعر میں جون ایلیا نے تپِ دق کا حقیقی نقشہ بیان کر دیا کہ جب انسان پر اِس قدر اضمحلال طاری ہو جاتا ہے تو وہ کسی کام کے قابل نہیں رہتا۔؎’’ ہم تو بس خون تھوکتے ہیں میاں…نہیں خوگر کسی مشقّت کے۔‘‘
یہ اشعار اُس دور میں لے جاتے ہیں، جب تپِ دق لاعلاج مرض تھا اور اِس مرض میں مبتلا ہونے کا مطلب یہی ہوتا کہ مریض نے موت کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے اور اب اس کی محفوظ واپسی کا کوئی امکان نہیں۔یاد رہے، دنیا کی کئی معروف شخصیات کی موت تپِ دق کی وجہ سے ہوئی، جن میں بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمّد علی جناح، برطانیہ کے ناول نگار ڈی ایچ لارنس، پولینڈ کے موسیقار فریڈرک شوپن اور اسکاٹ لینڈ کے شاعر و ادیب رابرٹ لوئیس اسٹیونسن وغیرہ شامل ہیں۔
تپِ دق کا مرض نیا نہیں، اس کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے۔ قدیم انسانی ڈھانچوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ چھے ہزار سال قبل بھی یہ مرض موجود تھا۔ مِصر سے ملنے والی پانچ ہزار سال قدیم حنوط شدہ لاشوں میں تپِ دق کے اثرات پائے گئے اور اِس مرض کو مختلف ادوار میں مختلف نام دئیے گئے۔ قدیم یونان میں اسے فائی سس(PHTHISIS) کہا جاتا تھا اور یہ نام اٹھارہویں صدی تک مستعمل رہا۔بعدازاں، اسے’’ سفید طاعون‘‘ کا نام دیا گیا کہ اس میں مبتلا مریضوں کی رنگت سفیدی مائل زرد ہو جاتی تھی۔ جرمن طبیب، ڈاکٹر جوہان شونلین وہ شخص تھا، جس نے پہلی مرتبہ 1834ء میں اِس مرض کو ٹیوبر کلوسس کے نام سے پکارا اور آج تک دنیا بَھر میں اِس کا یہی نام استعمال ہوتا ہے۔
البتہ، اردو میں اسے’’ تپِ دق‘‘ کہتے ہیں۔تپِ دق دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ تپ سے مُراد ہے گرمی، حرارت یا بخار، جب کہ دق کا مطلب ہے کہ تنگ، عاجز، پریشان، گھٹن زدہ، ناراض اور آزردہ۔ گویا تپِ دق ایسا مرض ہے، جس میں اکثر بخار ہوتا ہے اور مریض نڈھال، پریشان، گھٹن کی سی کیفیت اور ذہنی اذیّت میں مبتلا رہتا ہے۔ بحیثیت مجموعی تپِ دق یا ٹی بی کے مریض کو بخار، کھانسی (بعض اوقات بلغم اور خون کے ساتھ)، سینے میں درد، کم زوری، تھکن، وزن میں کمی، بھوک نہ لگنے اور رات کے وقت پسینے کے اخراج کی شکایات ہو سکتی ہیں۔
شدّت اور فعالیت کے اعتبار سے تپِ دق کی دو اقسام ہیں۔(1)پوشیدہ یا غیر فعال تپ دق (LATENT TB)۔(2) فعال تپِ دق۔(ACTIVE TB )۔پوشیدہ یا غیر فعال تپِ دق میں جراثیم خوابیدہ حالت میں جسم کے اندر موجود ہوتے ہیں، مریض کو کسی قسم کی شکایات نہیں ہوتیں اور مرض کسی دوسرے فرد کو منتقل بھی نہیں ہوتا، جب کہ فعال تپِ دق میں جراثیم بے دار اور متحرّک ہوتے ہیں۔ مریض کو مختلف شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مرض دوسرے افراد میں منتقل بھی ہو سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، دنیا کی 25فی صد آبادی غیر فعال تپِ دق میں مبتلا ہے اور ایسے مریضوں میں سے5 سے 10 فی صد کو زندگی کے کسی مرحلے میں فعال تپِ دق کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔
تپِ دق کا تعلق عمومی طور پر نظامِ تنفّس سے ہے اور یہ مرض انسانی پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے مریضوں میں سے 75فی صد پھیپھڑوں کی تپِ دق میں مبتلا ہوتے ہیں۔تاہم، اِس کی کئی اقسام ایسی ہیں، جو نظامِ تنفّس اور پھیپھڑوں سے ہٹ کر ہیں اور انسانی جسم کے دیگر حصّوں کو متاثر کرتی ہیں۔ مثلاً(1) جِلد کی تپِ دق (Cutaneous TB) انسانی جِلد کے کسی بھی حصّے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔(2) ہڈیوں کی تپِ دق (Skeletal TB) ہڈیوں کے ساتھ انسانی جوڑوں میں بھی ہو سکتی ہے۔(3) گُردوں کی تپِ دق (Reral TB)، یہ گُردوں کے علاوہ پیشاب کی نالی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔(4) دماغ کی جھلیوں کی تپِ دق (Tuberculous Meningitis)، تپِ دق کی سب سے خطر ناک شکل ہے، جو دماغ کی بیرونی جھلیوں کو متاثر کرتی ہے اور پچاس فی صد سے زائد مریضوں کو ہلاک کر دیتی ہے۔(5) نظامِ انہضام کی تپِ دق( Gartrointestinal TB) نظامِ انہضام کے مختلف حصّوں کو متاثر کر سکتی ہے، جن میں معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔(6) ملیری تپِ دق (Miliary TB)اس کی ایک اور خطر ناک شکل ہے۔ اس میں تپِ دق کے جراثیم خون کے بہائو میں شامل ہو کر مختلف اعضاء کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سائنس کی تمام تر ترقّی کے باوجود، تپِ دق کا مرض دنیا سے ختم نہیں ہو سکا۔ عالمی ادارۂ صحت نے نومبر2023ء میں جو رپورٹ شائع کی، اُس کے مطابق 2022ء میں دنیا کے10.6ملین افراد اِس خطرناک مرض میں مبتلا ہوئے۔ ان میں 5.8ملین مرد، 3.5ملین خواتین اور 1.3ملین بچّے تھے۔ تپِ دق اِس وقت دنیا کے ہر مُلک اور ہر عُمر کے افراد میں موجود ہے اور اسے کورونا کے بعد سب سے مُہلک وبائی مرض قرار دیا جاتا ہے۔ کورونا کی ہلاکت خیزیاں تھمنے کے بعد بلا شبہ یہ کرّۂ ارض کا مہلک ترین وبائی مرض ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی مذکورہ رپورٹ سے یہ بھی منکشف ہوا کہ تپِ دق کے مجموعی مریضوں میں سے دو تہائی کا تعلق دنیا کے آٹھ ممالک سے ہے۔ یہ آٹھ ممالک اور وہاں پائے جانے والے مریضوں کا تناسب کچھ اِس طرح ہے۔ (1) بھارت27فی صد (2) انڈونیشیا10 فی صد (3) چین 7.1فی صد (4) فلپائن7 فی صد(5) پاکستان 5.7فی صد(6)نائیجریا 4.5فی صد(7) بنگلا دیش 3.6 فی صد(8) کانگو 3فی صد۔ وطنِ عزیز، پاکستان اِس فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے، جہاں پوری دنیا کے 5.7فی صد تپِ دق کے مریض ہیں۔
ایک زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ مغربی ممالک سے تپِ دق کا مرض ختم ہو چُکا ہے، مگر وہاں بھی اِس بلا کا نزولِ ثانی ہو گیا ہے اور اس کی وجہ ایڈز کے مرض کے نتیجے میں انسانی قوّتِ مدافعت میں حددرجہ کمی ہونا ہے۔ غریب ممالک سے مغربی ممالک میں منتقل ہونے والے باشندے بھی اِس مرض کے دوبارہ جنم کے باعث بنے۔جہاں تک تپِ دق سے ہلاک ہونے والے مریضوں کا تعلق ہے، تو عالمی ادارۂ صحت کے مطابق2020ء میں 15لاکھ افراد،2021ء میں 14لاکھ افراد اور2022 ء میں13 لاکھ افراد اِس کی وجہ سے موت کا نشانہ بنے ہیں۔
تپِ دق کا باقاعدہ علاج شروع کرنے سے پیش تر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اِس کی تشخیص کس طرح کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک ماہر ڈاکٹر، مریض کا جو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے، وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔پھر ڈاکٹر ہی کی ہدایات کی روشنی میں مریض کے مختلف ٹیسٹس کیے جاتے ہیں۔ ان ٹیسٹس کی تفصیل کچھ اِس طرح ہے۔( 1) مریض کی جِلد اور خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
اِن دونوں ٹیسٹس سے یہ تو پتا چل جاتا ہے کہ جسم میں تپِ دق کے جراثیم موجود ہیں، مگر مرض کے فعال یا غیر فعال ہونے کا علم نہیں ہوتا۔(2) مریض کے ایکس رے، الٹرا سائونڈ، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی وغیرہ سے تشخیص میں بہت مدد ملتی ہے۔(3) مریض کے بلغم کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے عمومی طور پر بلغم کے تین نمونے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ تپِ دق کی تشخیص کا روایتی طریقہ ہے اور طویل مدّت سے اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہ طریقے آج بھی کار آمد ہیں، مگر اِن سے سو فی صد تیقّن حاصل نہیں ہوتا۔(4) مریض کی بائیوپسی (Biopsy) کی جاتی ہے اور متاثرہ حصّے کا چھوٹا سا نمونہ حاصل کر کے خردبین سے معائنہ کیا جاتا ہے۔
مرض کی حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ تپِ دق کے علاج کے لیے چار یا پانچ اینٹی بائیوٹک ادویہ استعمال کی جاتی ہیں اور علاج کا دورانیہ چھے سے بارہ ماہ پر محیط ہوتا ہے۔ علاج میں باقاعدگی بہت ضرروی ہے۔ بعض لوگ وقتی طور پر فائدہ ہونے پر علاج تَرک کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوتا ہے کہ ایسے مریضوں کے جراثیم کچھ مدّت بعد دوبارہ بے دار اور متحرّک ہو جاتے ہیں اور پھر ادویہ ان پر آسانی سے اثر انداز نہیں ہوتیں۔
تپِ دق کے حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ اِس مرض سے بچائو کس طرح ممکن ہے؟تو اِس سے بچائو کے دو بنیادی طریقے ہیں۔(1) ان لوگوں کی قربت سے گریز کیا جائے، جن کی تپِ دق فعال اور متحرّک ہو۔ تپِ دق کے جراثیم مریض کے بلغم میں موجود ہوتے ہیں۔ مریض کے کھانسنے، سانس خارج کرنے اور گفتگو سے یہ جراثیم باریک بوندوں کے ساتھ باہر آتے ہیں اور دوسرے افراد تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ اِس معاملے میں مریض اور اس کے قریب موجود فرد دونوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔(2) پوشیدہ اور غیر فعال تپِ دق کی تشخیص پر اس کا باقاعدہ علاج کیا جائے اور مرض کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔نیز، ٹی بی سے بچائو میں ویکسین کا بھی اہم کردار ہے اور یہ ویکسین بی سی جی کہلاتی ہے۔
یعنی Bacille Calmrtte-Guerin۔ دو فرانسسی ماہرینِ طب، ایلبرٹ کالمیٹ اور گیورین نے 13سالہ جدوجہد کے بعد1921 ء میں یہ ویکسین تیار کی تھی۔بچّوں کو پیدائش کے وقت یہ ویکسین لگائی جاتی ہے۔امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں اس کا زیادہ استعمال نہیں ہوتا، البتہ تیسری دنیا کے ممالک میں اس کی خاصی اہمیت ہے، جہاں کثرت سے تپِ دق کا مرض پایا جاتا ہے۔چند عوامل ایسے ہیں، جو تپِ دق کے خطرے میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً٭ ذیابطیس کا مرض٭ ایڈز جیسے امراض کی وجہ سے انسان کے مدافعتی نظام میں کم زوری٭ مناسب غذائیت کا فقدان٭ تمباکو نوشی اور نشہ آور ادویہ کا استعمال۔
پاکستان میں ہر سال تپِ دق کے پانچ لاکھ نئے مریضوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ستّر ہزار کے قریب مریض موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض لاعلاج نہیں بنایا، یہ انسان کی کوتاہی ہے کہ وہ بہت سے امراض کے علاج سے ناواقف ہے۔ تپِ دق سو فی صد قابلِ علاج ہے اور حکومت سے لے کر عام افراد تک، ہر ایک کی ذمّے داری ہے کہ مُلک کو تپِ دق سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے کہ ایک صحت مند پاکستان کی تعمیر کے بغیر کسی اسلامی فلاحی مملکت کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ ( مضمون نگار، معروف ماہرِ نفسیات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکریٹری ہیں)