• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوچُکا۔صُورتِ حال کچھ یوں بنی ہے کہ پنجاب میں، جو مُلک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور جس کی آبادی، کُل مُلکی آبادی کی62فی صد ہے، مسلم لیگ نون نے حکومت بنائی ہے، تو سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں سُنّی اتحاد کاؤنسل( یعنی پی ٹی آئی) کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں،جب کہ بلوچستان میں پی پی پی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی ہے۔صدر کے منصب پر آصف علی زرداری فائز ہوئے ہیں، جنھیں حکومتی اتحاد کی حمایت حاصل تھی۔

پنجاب میں32 سال سے مسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرتی آ رہی ہے، جب کہ اس نے وفاق میں پانچویں مرتبہ وزیرِ اعظم کا عُہدہ حاصل کیا ہے۔شہباز شریف اپنے بھائی، میاں نواز شریف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے ہوتے ہوئے اِس اعلیٰ ترین عُہدے تک پہنچے ہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر، مریم نواز نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی ہے۔وہ نواز شریف کی صاحب زادی ہیں، لیکن اکثر ناقدین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں اُن کا ایک الگ تشخّص بھی ہے۔ اُن میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں، جو اُنہیں اِس اہم ترین عُہدے کی حق دار بناتی ہیں۔ مریم نواز ایک بہادر خاتون ہیں اور اُنھوں نے جس جرأت مندی اور حوصلے سے جیل کاٹی، کال کوٹھری میں رہیں اور کبھی وکٹم کارڈ نہ کھیلا، اس نے مُلکی سیاست میں اُن کا قد کاٹھ صفِ اوّل کے رہنماؤں کے برابر کردیا۔ 

اُن کے بدترین ناقدین بھی مانتے ہیں کہ مریم نواز ایک سحر انگیز شخصیت کی مالک ہیں اور زبردست کراوؤڈ پُلر ہیں۔نوجوان اُن کی سیاست سے بہت متاثر ہیں، میڈیا کو انگیج کرنا جانتی ہیں اور بڑے کاٹ دار لہجے میں اپنا موقف صاف صاف عوام تک پہنچاتی ہیں۔ نیز، وہ جدید ٹیکنالوجی کو ترقّی کے لیے استعمال کرنے کی اہمیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔اپوزیشن کے تمام تر واروں کا نشانہ وہی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفین اُن کی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں۔ 

مسلم لیگ نون کو اندیشہ ہے کہ اگر مریم نواز ناکام ہوئیں، تو پارٹی کو اگلے کسی بھی الیکشن میں عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوگا، جب کہ پی ٹی آئی اِس بات سے خوف زدہ ہے کہ اگر مریم نواز ڈیلیور کرنے میں کام یاب رہیں، تو پنجاب میں اُن کے لیے ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا۔ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کا شور2018ء جیسا ہی ہے۔پہلے امریکی سائفر پر شور مچا، جو اب گلے پڑا ہوا ہے۔ پھر مظلومیت اور لیول پلیئنگ فیلڈ اور اب دھاندلی، لیکن جیسے گزشتہ بیانیے شور و غل اور سوشل میڈیا اُتار چڑھائو کے بعد نہ جانے کہاں کھو گئے، اِسی طرح یہ بیانیے بھی ماضی کا قصّہ بن جائیں گے۔

پھر یہ کہ پی ٹی آئی نے جس طرح اپنی شناخت کھو کر سنی اتحاد کاؤنسل کا رُوپ دھارا، اِسے بھی اُس کے ووٹرز کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ماضی میں عمران خان ذرا ذرا سی بات پر استعفے دیتے رہے ہیں، مگر اِس بار پی ٹی آئی کے حامی ارکان نے نہ صرف یہ کہ اسمبلیوں میں حلف اٹھایا، بلکہ خیبر پختون خوا میں حکومت بھی بنائی۔گویا، اب یہ جماعت بھی سیاسی مذاکرات کی طرف آ رہی ہے، جس سے ہمیشہ انکاری رہی ہے۔ پارٹی اور اس کے سربراہ کو غور کرنا ہوگا کہ مقبولیت کے دعووں کے باوجود اُنھیں کون اُس راہ پر چلا رہا ہے، جس سے پارٹی کی ساکھ اور قومی سیاست پر منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔اُسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کے پی کے کا ووٹر اب اُس کی کارکردگی دیکھے گا کہ اُسے منہگائی سے ریلیف اور ترقیاتی کام چاہئیں۔ کیا علی امین گنڈا پور یہ کرسکیں گے، جب کہ اب تو انہیں پہلے کی طرح ایک پیج کی بھی سہولت حاصل نہیں۔

سیاسی جوڑ توڑ اپنی جگہ، مگر ایک بات واضح ہے کہ اب سیاسی کھیل آسان نہیں رہا کہ عام آدمی معاشی حالات سے سخت پریشان ہے، ٹی وی بیانات یا سوشل میڈیا پوسٹس سے اُس کا پیٹ نہیں بھر سکے گا اور نہ ہی اِن چیزوں سے اُس کا تن ڈھانپا جاسکے گا، نہ ہی اُسے چھت میسّر ہوگی۔یہ ٹھوس زمینی حقیقت ہے، جس سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے گُڈ گورنینس، سرمایہ اور مہارت چاہیے، تو کیا اِن کے لیے تیاری موجود ہے۔

اِس سوال کا جواب پاکستانی قوم کو بھی دینا ہوگاکہ کیا وہ اِسی طرح مایوسی کی دلدل میں دھنسی رہے گی یا اپنے ترقّی کرتے ہم سایوں کی طرح کچھ کر دِکھائے گی ۔اگر اُن کا خیال ہے کہ جمہوریت یا آزادی کے نعروں میں بیرونی دنیا کو کوئی دل چسپی ہے، تو اُنہیں غزہ کی صُورتِ حال سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جو اب پانچویں مہینے میں داخل ہو چُکی ہے اور کوئی بھی اُن کا پُرسانِ حال نہیں۔ ریلیوں سے کوئی حل نکل رہا ہے اور نہ ہی فریادیں کام آ رہی ہیں۔ایران اپنے انتخابات میں مصروف ہے، تو امریکا میں بھی انتخابی عمل جاری ہے، چین اپنی ترقّی اور روس اپنے معاملات میں اُلجھا ہوا ہے، جب کہ غزہ میں اموات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔

بہرکیف، وفاق یا صوبوں کی حکومتیں پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں بھری رہ گزر ہیں اور اس کی چبھن پہلے ہی دن سے محسوس بھی ہونے لگی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کی تلوار تو لٹک ہی رہی ہے، اب شہباز حکومت کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ پروگرام مزید کتنے سال جاری رکھنا پڑے گا۔بانی پی ٹی آئی نے، جو حکومت میں آنے سے قبل جوشِ خطابت میں کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکُشی کرنے کو ترجیح دوں گا، اپنے دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ، اسد عُمر کی قربانی دی اور حفیظ پاشا کو امپورٹ کرکے قرض کی کڑوی گولی نگلی۔

پھر انہی کے دور میں گورنر اسٹیٹ بینک نے قومی مانیٹری پالیسی کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، انٹریسٹ ریٹ بائیس فی صد پر رکھا، اس کی گونج منہگائی اور تباہ حال معیشت کی شکل میں اب تک موجود ہے۔ اُس دورِ حکومت نے قرضے لینے کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ یہ ساری باتیں ہم نے اِس لیے لکھی ہیں کہ پاکستانی قوم، خاص طور پر میڈیا، تجزیہ نگار اور اہلِ دانش اب الیکشن کی سیاست سے نکل کر معیشت پر توجّہ مرکوز کریں۔وگرنہ، لایعنی مسائل ہی اُن کے پروگرامز کا حصّہ بنے رہیں گے۔ نیز، ہمیں ایک اور روایت بھی تَرک کرنا ہوگی۔وہ یہ کہ حکومت کے قیام کے پہلے ہی روز سے معیشت کا کائونٹ ڈائون شروع ہوجاتا ہے، جو کسی طور مناسب بات نہیں۔

کسی بھی مُلکی یا بیرونی ماہر سے رائے لے لیں، وہ یہی کہے گا کہ پاکستانی معیشت کو سنورتے سنورتے کم ازکم دس سال لگیں گے اور وہ بھی جب کہ اس پر بھرپور توجّہ رہے۔پہلے ایک سو دن اور وائٹ پیپرز کے چکر چھوڑ کر ٹھوس حقائق پر بات کریں اور وہ یہ ہے کہ مُلکی معیشت تباہ حال ہے، اِسے اکیلے سنبھالنا کسی جادوگر کے بھی بس میں نہیں۔ ہماری ساری زندگی میڈیا میں گزری، ہم اس کی ضروریات خُوب سمجھتے ہیں، لیکن اب اینکرز اور ماہرین کو ٹھوس معاشی حقیقتوں اور اُن کا حل عوام کے سامنے پیش کرنے کی ذمّے داری پوری کرنی ہوگی، صرف ایک گھنٹہ پورا کرنا کافی نہ ہوگا۔ تنقید اہم ہے، لیکن اِس سے بھی زیادہ لازمی، وقت کی آواز کو سننا ہے، وگرنہ ہمیں سنگاپور، ملائیشیا، تُرکی اور بنگلا دیش کی مثالوں ہی پر گزارہ کرنا پڑے گا اور خود منہگائی ہی کا رونا روتے رہیں گے۔

شہباز شریف کو چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بھارت، ایران، ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک کی جانب سے مبارک باد کے پیغامات بھیجے گئے ہیں، جب کہ امریکا نے بھارتی مبارک باد کو خوش آئند قرار دیاہے۔امریکا کہہ چُکا ہے کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کی راہیں تلاش کر رہا ہے، بلکہ اس نے مریم نواز کے پنجاب میں چیف منسٹر کا عُہدہ سنبھالنے کو پاکستان میں خواتین پاور کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بنگلا دیش کے حالیہ الیکشن کے دوسرے ہی دن وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اُنہیں شیم، یعنی جعلی الیکشن قرار دیا، لیکن ہفتہ بھی نہ گزرا کہ نئی کی حکومت کے ساتھ معمول کا کام شروع کردیا۔

ہمارے ہاں کے اہلِ دانش کہتے ہیں کہ ہمیں یورپ اور امریکا کی بجائے چین، روس، مشرق وسطیٰ، افریقا اور جنوبی ایشیا کے مسلم ممالک کے ساتھ مل کر اپنی خارجہ و علاقائی سیاست کرنی چاہیے۔ تو پھر بسم اللہ کریں کہ یہ سب ممالک نئی حکومت کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ دیکھا جائے، تو عرب ممالک سے تیل اور سرمائے کا حصول ضروری ہے ، تو وہاں پاکستانی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی اہم ہیں، جب کہ تُرکی اور دیگر ممالک دفاعی نقطۂ نظر سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ملائیشیا، انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی اور تجارت میں ہماری معاونت کرسکتے ہیں۔ یورپ پہلے ہی جی ایس پی پلس کی تجدید کرچُکا ہے۔

ایسے میں ہمیں اپنی اندرونی سیاست کو ترقّی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔کراچی اور پنجاب کو لے لیں، پی ٹی آئی دَور میں یہ ڈیولپمنٹ کے معاملے میں نظر انداز ہوئے، سڑکیں بنیں، نہ اسپتال، تعلیمی ادارے قائم ہوئے، نہ سماجی ترقّی ہوسکی۔ مزید دو کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔آبادی پر کنٹرول اور ماحولیاتی معاملات تو گویا اپنی اہمیت ہی کھو بیٹھے۔بلین ٹری پراجیکٹ کا نام و نشان بھی نہیں، حالاں کہ اب تک جنگل کے جنگل وجود میں آجانے چاہیے تھے۔ہم بتاتے چلیں کہ بھارت کی ترقّی کی رفتار8.4 پر ہے، جو دنیا میں تیز ترین رفتار تسلیم کی جا رہی ہے۔

حال ہی میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا سالانہ تین روزہ اجلاس ہوا، جس میں آئندہ کی ترقیاتی پالیسیز طے کی گئیں۔بتایا گیا کہ چین کا سالانہ دفاعی بجٹ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں دس سال میں 720ارب ڈالرز سے بڑھ کر1760 ارب ڈالرز ہوچُکا ہے۔ دوسری طرف یہ خبر بھی دیکھیں کہ اقوامِ متحدہ نے چین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے کو کہا ہے۔ یاد رہے، یہ وہی اقوامِ متحدہ ہے، جو گزشتہ کئی ماہ سے غزہ میں30 ہزار سے زاید افراد کی شہادت پر بے بس ہے۔

یہی ادارے پاکستانیوں کی اندرونی ناچاقی کا فائدہ اُٹھا کر انسانی اور سیاسی حکومت کے طریقوں کا درس دیتے ہیں اور ہمارے کچھ ناسمجھ ماہرین اُن کی باتیں اچھال اچھال کر قوم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنگلا دیش کبھی غیر مُلکی اداروں کی تنقید پر کان نہیں دھرتا، نام نہاد ناقدین اور تجزیہ کاروں نے چینی پارلیمان کو’’ ربر اسٹیمپ پارلیمان‘‘ کہا، مگر چین نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ ہمیں بھی اِس طرح کے ماہرین اور اداروں کی باتوں پر زیادہ سر دُھننے کی ضرورت نہیں۔

2012 ء میں جب برطانوی معیشت عالمی مالیاتی بحران کی زد میں تھی، تو وہاں کی ممتاز یونی ورسٹی، کیمبرج نے حکومتی معاونت کی ایک روشن مثال قائم کی۔کیمبرج کے گرد قائم سلیکون ویلی طرز کی اندسٹریل اسٹیٹ نے زبردست کام کیا اور وہاں کے طلبہ نے مُلک و قوم کو اربوں پائونڈز کے مالی وسائل فراہم کیے اور اِس بحران سے نکلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی ایسے کرداروں اور مثالوں کا نہ صرف مطالعہ کرنا چاہیے، بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتیں کام میں لاتے ہوئے مُلکی ترقّی میں اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ انہیں سیاست سے بلند ہو کر تعلیمی ٹیکنالوجی اور عملی میدان میں کام کرنا چاہیے۔

ہم جانتے ہیں کہ بیرونِ مُلک، خاص طور پر امریکا اور برطانیہ میں ایسے نوجوان موجود ہیں، جو مُلک و قوم کی بے لوث رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ اُن سے کام لیتی ہے یا نہیں۔ آخر ہمارے نوجوانوں نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ گروہی سیاست، کلٹ اور خود غرضانہ سیاست کی بھینٹ چڑھ کر ترقّی سے محروم رہیں اور یہ بے روزگار نوجوان، اِدھر اُدھر بھاگتے پھریں۔ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ سیاسی معاملات سے دُور ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح طور پر کہا ہے کہ عوام منتخب پارلیمان کی طرف دیکھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ عدلیہ کا انتظامی اور قانون سازی کے معاملات میں کوئی کردار نہیں۔ 

یہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمتِ عملی کے لیے ایک دھچکا ہے، کیوں کہ وہ گزشتہ دس سالوں میں اعلیٰ عدلیہ اور منتخب حکومتوں کو لڑواتی رہی ہے۔نواز شریف کو میدان میں شکست دینا ممکن نہیں تھا، تو اُنھیں عدالت سے نا اہل کروا دیا۔مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے بڑے بڑے رہنماؤں کو اسی حکمتِ عملی کے تحت عدالتوں کے ذریعے بے اثر کیا،یہاں تک کہ پارلیمان بھی عدلیہ کے سامنے بے بس رہی۔ سیاسی رہنماؤں کو ڈان اور سسلین مافیا جیسے نازیبا الفاظ کا طعنہ دیا گیا۔ عوام اور میڈیا کارکردگی سے ہٹ کر اِسی طرح کی فضول باتوں میں اُلجھ گئے۔ 

عوام معیشت اور منہگائی کا رونا تو روتی رہی، لیکن اس کی توجّہ عدالتوں سے آنے والی شہ سرخیوں اور ججز کی آبزرویشنز پر رہی۔عدالتوں کو آئین، قانون اورپارلیمان پر بالادست بنانے والی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی یہ رہی کہ اس نے پنجاب کو عثمان بزدار جیسا شخص دیا۔ ساڑھے تین سال میں پانچ وزرائے خزانہ، اسٹیٹ بینک کے دو گورنرز اور ایف بی آر کے تین چیئرمین تبدیل کیے۔ اِسے اَن ہونی ہی کہیں گے کہ اِن حرکتوں کے باوجود مُلک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، جس کے لیے ہم اپنے دیرینہ دوستوں، سعودی عرب اور چین کا جتنا بھی شُکریہ ادا کریں، وہ کم ہے۔لیکن کم ازکم اب تو ہمیں ہوش میں آجانا چاہیے۔ اگر انتخابی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، تو اُنہیں متعلقہ فورمز پر ڈیل کریں، لیکن قوم کو محنت کی راہ سے نہ ہٹنے دیں کہ یہ عمل آپ کے بچّوں کا مستقبل تباہ کردے گا۔