• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی سماج میں محض فکری جستجو یا دانشوروں کے خیالات تبدیلی کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس معاشرے میں سیاسی اور معاشی طور پر بھی تبدیلی کا عمل ایک نہج تک نہیں پہنچ جاتا۔ یعنی کہ ذہنی شعور،سیاسی ارتقا اور معاشی ترقی کے عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس تبدیلی کے عمل میں قدیم ادارے اور روایات اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ،لیکن معاشرے کا شعوری ابھاران روایتی اداروں کو مزید قدم نہیں جمانے دیتا۔

اس تاریخی عمل کی روشنی میں جب ہم پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم فکری ، سیاسی اور معاشی طور پر 76سال گزرنے کے باوجود زوال پذیری کا شکار ہیں اور روایتی ادارے پوری طرح اپنے قدم مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں۔فکری ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ذہن کو بھی کھلا رکھا جائے اور تبدیلی کے عمل کو بھی قبول کیا جائے،چاہے اس کیلئے ہمیں اپنی روایات اور اداروں کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے کیوں کہ روایات اور ادارے سماج کے لیے ہوتے ہیں اور انسانی ضروریات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے میں فکری ترقی کی اس نہج کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک نظریاتی ریاست ہونے کی وجہ سے ہمارا شعور ارتقاپذیر نہیں ہو سکاکیوں کہ ریاستی بیانیہ پوری شد ومد سے معاشرے کی جڑوں میں پیوست کیا جاتا رہا۔کیونکہ ہمارے نناوے فیصد دانشور ،ریاستی دانشور بن کر اسی بیانیے کے گیت گاتے رہے اور ریاست کے منظم ادارے اس بیانیے کے گرد حب ا لوطنی کا پرچار کرتے رہے۔اس طرح ایک فیصد دانشور جو تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ ریاست اور معاشرے دونوں کے دشمن ٹھہرائے جاتے ہیں ، اسے بیانیے سے انحراف ،بغاوت اور جرم گردانا جاتا ہے۔یورپ میںقرون وسطیٰ میں بھی اسی طرح بادشاہ اور چرچ کے تسلط کو برقراررکھنے کے لیے محکمہِ انکو ئزیزیشن کا قیام عمل میں لایا گیاجو ان دانشوروں اور افراد کو تلاش کر کے سزا دیتا تھا جو بادشاہ اور چرچ کے بیانیے سے انحراف کرتے تھے۔یہاں تک کہ کتابوں کی اشاعت سے پہلے چرچ کے عہدیدار کتابوں کے مواد کی چھان بین کرتے تھے۔ لیکن آخر کار لوتھر نے سولہویں صدی میں پوپ کے عہدے کو ماننے سے انکار کیااور کہا کہ فرد اور خدا کے درمیان تعلق کسی چرچ کے عہدیدار کے بغیر بھی ہو سکتا ہے، یوں یورپین ریاستیں آہستہ آہستہ سیکولرازم کے ثمر سے ریاست اور عقیدے کے سلسلے میں غیر جانبدارہوتی گئیں۔لیکن مذہب اب بھی یورپ میں کلچر اور ثقافت کے حوالے سے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہےلیکن یورپین عقائد اب سیاسی و معاشی امور اور نہ ہی سائنس و ٹیکنالوجی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔یوں یورپ میں سیاسی ادارے اپنی افادیت اور اہمیت کی بنیاد پر تشکیل پائے۔یورپین معاشرہ آج بھی ایسے اداروں اور روایات کو پروان چڑھا رہا ہے جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ شخصیات کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے معاشرے کو ایک تیل پلائی ہوئی خودکار مشین میں تبدیل کر دیا۔اس سے ریاست اور لوگوں کے درمیان رشتہ اتنا مضبوط ہو گیا کہ اس معاشرے کا ہر فرد ریاست کواپنی ماں گردانتا ہے۔یورپین مثال سے یہ بات باور ہوجاتی ہے کہ ایک نظریاتی ریاست فکر کو جلا نہیں بخشتی جس سے سیاسی اداروں کے ارتقا کا عمل مشکل میں پڑجاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی ادارے تو چھوڑیے، ایسی فضا ہی نہ بن سکی جہاں عوام اپنی مرضی سے حکومت کی تشکیل کر سکیں۔80ء کی دہائی سے جنرل ضیا الحق نے ریاست کا بیانیہ ہی تبدیل کر دیا ، انتہا پسندی کی سرپرستی کی گئی اور نصاب میں رجعت پسند مواد شامل کیا گیا جس کے نتیجے میں جو نسلیں پروان چڑھ رہی تھیں ، وہ سائنسی طرز فکر سے بھی محروم ہوتی چلی گئیں۔جو لوگ سائنسی طرز فکر کاپرچار کر رہے تھے ، وہ معتوب ہوگئے۔اب اگر پاکستان کو اکیسویں صدی میں باقی دنیا کے ساتھ مل کر چلنا ہے اور ملک کوخوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اس سیاسی تنزلی کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا۔اب بات سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت سے آگے نکل گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اپنے اپنے حصے کی سزائیں بھگتنے کے باوجود ریاستی اداروں سے مراسم بڑھانے پر متوجہ ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح وہ دوبارہ حکومت میں آسکیں لیکن وہ ریاست کی تنظیم نواور فکر ی و معاشی ترقی کیلئے تیار نہیں ۔مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت بغیر کسی عوامی سپورٹ کے لائی گئی ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منظم کی گئی سیاسی جماعتوں کا غیر فطری ملاپ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت نے ابھی تک جمہوری حقوق کی پامالی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی عوام کے معاشی مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس نعم البدل پیش کیا ہے۔ان سیاسی ناگفتہ بہ حالات کے باوجود مبصرین کا بڑا طبقہ لولی لنگڑی جمہوریت سے ہی وابستہ رہنے کی تلقین کر رہا ہے ، ان تمام سماجی تنزلیوں کے باوجود اگر موجودہ حکومت ریاست اور عوام کے درمیان کوئی رشتہ استوار کرنا چاہتی ہے تو وہ جلد از جلد ریاستی ڈھانچے کو کم سے کم کرے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے ، مزدوروں ، کسانوں ، عورتوں ، طالب علموں اور اقلیتوں کے مسائل کے حل کو ترجیح دے اور محکوم قوموں کو انکے سیاسی اور معاشی حقوق جلد از جلد واپس کیے جائیں تاکہ پاکستان ایک بہتر وفاقیت پر قائم رہ سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام پڑوسی ممالک اور خاص طور پر بھارت سے سائنسی بنیادوں پر دوستانہ رشتے استوار کیے جائیں۔

تازہ ترین