• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گزشتہ ایک کالم کا عنوان تھا ’’قرض‘‘۔ اس میں میں نے ذکر کیا تھا کہ انسان باقی قرض تو کوشش کر کے اتار سکتا ہے لیکن دو قرض ایسے ہیں جو کوشش کے باوجود پوری طرح نہیں اتارے جاسکتے۔ اول اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا قرض اور دوم ماں کی محبت کا قرض۔ میرے نزدیک یہ دو قرض اتنے وسیع گہرے اور عظیم ہوتے ہیں کہ انسان ان کی مکمل ادائیگی نہیں کرسکتا اوران کا بوجھ کندھوں پر لادے قبر میں اتر جاتا ہے۔ میرے ایک محترم قاری رانا عبدالکریم صاحب کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ہستیاں قرض کی ادائیگی کا مطالبہ بھی نہیں کرتیں، ہمیں ان قرضوں کی فکر کرنی چاہئے جس کی واپسی کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ رانا صاحب سے میں کبھی نہیں ملا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور عالم و فاضل انسان ہیں۔ دراصل یہاں قرض کا لفظ نعمت اور احساس شکرانہ کے مفہوم میں لکھا گیا تھا اور ظاہر ہے نعمت کا بدل نعمت ہی ہوسکتی ہے نعمت کا قرض نعمت سے ہی ادا ہوسکتا ہے اور انسان نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے نہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بدلہ چکا سکتا ہے اور نہ ہی ماں کی محبت کی نعمت کا قرض ادا کرسکتا ہے کیونکہ خالق حقیقی اور ماں کے جذبے کا کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے۔
بات تھوڑی دور نکل گئی۔ قرض کا ذکر میں نے اس لئے چھیڑا کہ کالم نگاروں پر ایک قرض قارئین کا بھی ہوتا ہے جسے کوشش کر کے اتارا جاسکتا ہے۔ اس قرض کی تعریف، وضاحت اور تصور تو خاصا وسیع ہے لیکن اگر محض ایک اصول کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے اور اس پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو یہ قرض خاصی حد تک ادا ہو جاتا ہے۔ وہ اصول ہے سچائی اور اپنی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر سچائی کا اظہار۔ اگرچہ سچ اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن اگر اپنا سچ ذاتی مفاد، منفعت ، مصلحت اور لالچ یا حرص سے پاک ہو تو وہ بہرحال سچ ہی رہتا ہے چاہے اس میں خامیاں ہوں۔ نیت میں خامی نہیں ہونی چاہئے، نقطہ نظر، اظہار یا جانچ پرکھ کی خامی قابل معافی ہوتی ہے۔ کالم نگاری اس نقطہ نظر سے ایک دلچسپ شعبہ ہے کہ اس میں دیکھے ملے بغیر بیک وقت آپ کے بہت سے خیر خواہ، دعاگو، مخالف اور نقاد پیدا ہو جاتے ہیں اور اکثر اوقات لکھنے والے کو ان کا پوری طرح علم بھی نہیں ہوتا۔ خیر خواہ، دعاگو یا چاہنے والے ایسے قارئین ہوتے ہیں جنہیںکالم نگار کے الفاظ میں اپنے خیالات اور نظریات کا عکس نظر آتا ہے اوربن دیکھے مخالف وہ ہوتے ہیں جنہیں لکھاری کے نظریات سے اختلاف ہوتا ہے یا پھرلکھاری کی نیت پر شبہ ہوتا ہے۔
قارئین کے قرض کا ذکر چلا تو مجھے یاد آیا کہ طویل عرصہ قبل میں نے ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کے چشم کشا انکشافات پرمشتمل تین کالم لکھے تھے۔ یہ کتاب مجھے انگلستان سے میرے ایک مہربان دوست ڈاکٹر جاوید رضوی نے بھجوائی تھی جو بنیادی طور پر بچوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ وہ مجھے علم و فضل کے حوالے سے بچہ سمجھ کر کبھی کبھار انگلستان سے کتاب یا چاکلیٹ کا تحفہ بھیجتے رہتے ہیں اور میری نالائقی کہ میں ان کی محبت کا قرض اتار نہیں سکتا۔ برطانوی جاسوس ہمفرے کی سرگزشت اردو میں تھی اور میں اسے ناول کے انداز میں تیزی سے پڑھ گیا۔ میں اگرچہ سازش تھیوری کا زیادہ قائل نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی اور استعماری قوتیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے نہ صرف سازشوں کا جال بچھاتی ہیں بلکہ تربیت یافتہ ایجنٹوں کی فوج بھی تیار کرتی ہیں اور مخالفین کے کیمپوں سے بھاری معاوضوں کے ذریعے وفاداریاں بھی خریدتی ہیں۔ میر جعفر و صادق تو پرانی باتیں ہیں کیا آپ نے نہیں دیکھا اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے حوالے سے کس طرح جال بچھایا گیا۔ ابھی تو یہ راز پوری طرح فاش نہیں ہوا، جب یہ راز کھلا تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ شام و عراق سے لے کر پاکستان تک مسلمانوں کو مسلک کی بنا پر تقسیم کرنا اور شیعہ سنی فسادات کی فضا ہموار کرنا بعض عالمی قوتوں کا ہتھکنڈا ہے جس کی ہماری تاریخ میں جڑیں خاص گہری ہیں۔ برطانوی جاسوس ہمفرے کے فرائض میں ایک اہم فرض سنی شیعہ اختلافات کو ہوا دینا بھی شامل تھا۔ ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ سازشیں ہماری اپنی کمزوریوں کے سبب کامیاب ہوتی ہیں اور یہ کمزوریاں نہ صرف کردار کی ہیں بلکہ علمی،سائنسی اور تحقیقی میدانوں میں بھی بہت نمایاں ہیں۔ ہمفرے کے اعترافات یا انکشافات پڑھتے ہوئے یہ تو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ تاریخ نہیں بلکہ فکشن ہے لیکن مقصد جاسوسوں کے طریقہ واردات اور عالمی قوتوں کے عزائم کے حوالے سے شعور (Awareness) پیدا کرنا تھا کیونکہ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے دوران امریکی روسی جرمن اور دوسری عالمی قوتوں کے بہت سے جاسوسوں کی کہانیاں، انکشافات اور سوانح عمریاں چھپ چکی ہیں۔ چند برس قبل لاہور میں اگر امریکی جاسوس کچھ معصوم جانوں کو قتل کر کے گرفتار نہ ہوتا تو اہل پاکستان کو اس کی موجودگی کا پتہ ہی نہ چلتا۔
ہمفرے کے انکشافات چھپے تو مجھے سب سے پہلے میرے دوست اور دیرینہ رفیق کار محترم لطیف الفت صاحب نے انتباہ کیا کہ یہ کتاب غیر مصدقہ ہے۔ الفت صاحب پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں کئی برس رہے ہیں، علم دوست ہیں اس لئے ان کی رائے میرے لئے اہم تھی۔ مشکل یہ ہے کہ وقت کا دریا اتنی تیزی سے بہتا ہے کہ گزرے ہوئے لمحات کا حساب یاد رکھنا اور بیباک کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مجھ سے یہ کتاب برادرم حفیظ اللہ نیازی اغواکر کے لئے گئے کہ وہ جاسوسوں میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ جب یہ بے زبان ایک بار اغوا ہو جائے تو اس کی بازیابی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک خط ملا جس نے مجھے چونکا دیا۔ اس بے نام چاہنے والے کے خط کے ساتھ ایک ممتاز لکھاری اور روحانی شخصیت جناب ابو یحییٰ کی ایک کتاب کے تین چار صفحات نتھی تھے جنہیں پڑھ کر مجھے علم ہوا کہ بابا یحییٰ ہمفرے کے انکشافات پر رنجیدہ خاطر ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تاریخی حوالوں سے ہمفرے کی کہانی کو رد کیا ہے جبکہ اس کتاب کو پھیلانے میں ایک خاص مذہبی مسلک کے ہاتھ کا بھی ذکر کیا ہے جس کا مجھے ہرگز علم نہیں تھا۔تاریخی فکشن سمجھ کر میں نے نامور سیاسی مذہبی شخصیات کے اسمائے گرامی کا ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ مقصد کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا نہیں تھا اس کے باوجود اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے تو میری معذرت قبول فرمائیں۔ میں بابا ابو یحییٰ سے کبھی نہیں ملا لیکن ان کا بہت احترام کرتا ہوں اور ان کے الفاظ بھی میرے لئے محترم ہیں۔ وہ ہمفرے کی کتاب کو غیر مستند قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی ذلت اور بدحالی میں کسی سازش سے زیادہ علم و اخلاق میں ان کی پستی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہے۔ تعصب اور جہالت ان کے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔ بدقسمتی سے اس کتاب کو ایک مسلک نے خوب پھیلایا ہے لیکن اصل سانحہ یہ ہے کہ کن مذہبوں گروپوںکو اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ بھی اپنی طرف سے ایک قرض اتارنے کی کوشش تھی۔ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس میں کامیاب ہوا یا نہیں۔
تازہ ترین