شائستہ ارشد صدیقی، کراچی
ہر سلیم الفطرت شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خُوب صُورت دکھائی دے۔ لوگ اُس کا سراپا دیکھ کر اُسے سراہیں۔ ہر محفل میں اُس کی خُوب صُورتی کے چرچے ہوں اور وہ جی بھر کر داد وصول کرے۔ یہ تمنّا، آرزو ہر مَردو زن میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خُوب صُورت نقوش کے حامل افراد خود کو حُسن کی وادی کا بادشاہ یا ملکہ گردانتے ہوئے اس میں اِترائے اِترائے پِھرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عموماً حسین چہرے ہی کو خُوب صُورتی کا معیار سمجھا جاتا ہے اور اس کی شادابی و دِل کشی برقرار رکھنے کے لیے بے شمار جتن بھی کیے جاتے ہیں۔
بلاشُبہ پُرکشش و حسین شخصیت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ہمیں اس پر خالقِ کائنات کا شُکر گزار ہونا چاہیے، لیکن کیا ہم نے کبھی چہرے کی طرح اپنے مَن یا باطن کی خُوب صُورتی بھی بڑھانے کی کوشش کی؟ کیا کبھی کوئی اپنے باطن، اپنی رُوح اور سیرت پر بھی نازاں ہوا۔ کیا ہم نے کبھی اپنی خُوب سیرتی کو، جو دراصل ہمارے مَن کی خُوب صُورتی ہے، نکھارنے کی کوشش کی؟ یقیناً ہم میں سے بیش تر افراد کا جواب نفی میں ہوگا، کیوں کہ ہم ظاہری شکل و صُورت کی آرائش و زیبائش ہی کو خُوب صُورتی قرار دیتے ہیں اور کئی لوگ تو خُوب سیرتی کے معنی تک سے واقف نہیں۔
یاد رہے کہ خُوب صُورت ہونا یا خُوب صُورت لوگوں کو پسند کرنا کوئی بُری بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے اور اُس کی تخلیق کردہ اس بے مثال کائنات میں ذرّے ذرّے سے خُوب صُورتی جھلکتی ہے۔ لیکن کیا صرف اس بات پر فخر کیا جاسکتا ہے کہ ہم خُوب صُورت چہرے کے مالک ہیں۔ اگر کوئی خُوب رُو، خُوب صُورت دِل کا مالک نہیں، تو اس کا حُسن دیرپا نہیں، کیوں کہ ظاہری خُوب صُورتی وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔اگر کوئی انسان واجبی شکل وصورت کا ہے لیکن اُس کا دل خُوب صُورت ہے، تو اُس کا باطنی حُسن اُس کی ظاہری شکل و صُورت سے زیادہ حسین ہے۔ یہ خُوب سیرتی کبھی ختم نہیں ہو گی اور زیادہ عزّت کا باعث بنے گی۔ خُوب سیرت شخص اُن لاکھوں حُسن وجمال کے پیکروں سے بہتر ہو گا کہ جو اپنے مَن کی خُوب صُورتی سے ناواقف ہیں۔
تاہم، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سارے ہی حسین لوگ اپنی مَن کی خُوب صورتی سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت سے خُوب رُو افراد بھی نیک دل ہوتے ہیں۔ آج دُنیا خُوب صُورت چہروں ہی کو اہمیت دیتی ہے، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ خُوب صُورتی کی تلاش میں آپ چاہے پوری دُنیا کا چکر لگالیں، اگر وہ آپ کے اندر نہیں، تو پھر کہیں بھی نہیں ہے۔ آج مَردو خواتین خود کو حسین و جمیل بنانے کے لیے بیوٹی پارلرز کا رُخ کر رہے ہیں۔
اَن گنت کاسمیٹک کمپنیز وجود میں آچُکی ہیں، جو دن رات میک اپ کی مصنوعات بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح چہرے کی شادابی برقرار رکھنے کے لیے جا بجا ایستھیٹک کلینکس قائم ہو چُکے ہیں۔ اسی طرح ایسی لا تعداد ویب سائٹس موجود ہیں کہ جن پر چہرے کو خُوب صُورت بنانے کے ٹوٹکے بتائے جاتے ہیں۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ظاہری خُوب صُورتی اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ اس پر پیسا پانی کی طرح بہایا جائے۔ آج کوئی ایسا ادارہ کیوں موجودنہیں ہے کہ جو مَن کی خُوب صُورتی کو اُبھارے یا خوب سیرتی کی گرومنگ کرے۔ آج ذرائع ابلاغ پر ایسا مواد خال خال ہی نظر آتا ہے کہ جو ہمیں اپنا باطن نکھارنے کی تعلیم دیتا ہو، حالاں کہ درحقیقت تو خُوب سیرتی ہی ہماری اور دوسروں کی زندگیاں پُر سکون بناتی ہے۔
یاد رہے کہ خُوب صُورتی تو دراصل انسان کے دل میں چُھپی ہوتی ہے، بس اُسے تلاش کر کے نکھارنا پڑتا ہے اور پھر یہ مَن کی خُوب صُورتی چہرے کو بھی اِک ایسی کشش دیتی ہے، جو لاکھوں حسین چہروں سے زیادہ متاثرکن ہوتی ہے۔ یہ رُوح کی دولت مندی اور تونگری انسان کے چہرے کو حُسن ہی عطا نہیں کرتی، عزّت و احترام ، مونس و غم خواری کے جذبات و احساسات بھی بیدار کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ہر فرد کی رُوح اس کی آنکھوں، چہرے مُہرے اور جسمانی حرکات و سکنات سے اپنا اظہار کرتی ہے اور ہماری شکل و صُورت ،رُوح سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی، کیوں کہ ہماری رُوح ہی ہمارا اصل حُسن ہے۔ اگر رُوح کو گھر تصوّر کر لیا جائے، تو ہماری آنکھیں اس کے دَر و دریچے اور ہمارے الفاظ اس کے پیام بَر ہیں۔ اس لیے اپنی رُوح کے حُسن کو پہچانیں اور اپنے مَن میں وہ روشنی پیدا کریں کہ جو گردو پیش میں بھی اُجالا کر دے۔
یعنی آپ کے الفاظ اور عادات و اطوار دوسروں کے لیے کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کے موافق ثابت ہوں۔ تو آئیے، آج سے ہم خُود سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی شکل و صُورت کے ساتھ اپنی عادات، اخلاق اور رُوح کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے، کیوں کہ رَوح امر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔