• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگ اپنے اوصاف اور اعلیٰ کردار کے باعث لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنالیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت میرے عظیم استاد، بی اے غنی کی بھی تھی۔ مَیں نے اپنی زندگی میں ان جیسا قابل ترین انسان اپنے اِردگرد نہیں دیکھا۔ اُن کا نام میرے استادوں کی فہرست میں ہمیشہ سرفہرست رہا۔ مَیں ان کا ایک ادنیٰ سا شاگرد تھا کہ اُن جیسے ذہین اورعالم انسان سے تعلق رکھنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ 

اُن کا نام عبدالغنی تھا، لیکن اسکول میں بی اے غنی کے نام سے معروف تھے، جب کہ اپنے آبائی گاؤں، موہڑہ داروغہ، راول پنڈی میں اپنی علم دوستی، محبّت، بھائی چارے اور دُکھ سُکھ میں ہرایک کے کام آنے کے سبب ’’بابوجی‘‘ کے نام سے پُکارے جاتے۔ وہ اپنے گائوں کے پہلے شخص تھے، جنہوں نے اپنی ذہانت، خداداد صلاحیتوں کی بدولت تعلیمی سفرجاری رکھا اور گائوں کے پہلے گریجویٹ کہلائے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ جب انہوں نے بی اے پاس کیا، تو اُن کے گائوں کے علاوہ اردگرد کے کئی دوسرے دیہات سے بھی لوگ مبارک باد دینے ان کے گھراکٹھے ہوگئے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ایک میلہ سا لگ گیا۔ پھر گائوں کے ایک میراثی کو خبر ہوئی، تو اُس نے حوصلہ افزائی پر مبنی تعریفی گیت سُناکر سماں باندھ دیا۔

گریجویشن کے بعد درس و تدریس سے منسلک ہوئے، تو درس گاہ کے اساتذہ اُن کی ذہانت اور صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرنے لگے۔ مَیں ایک نالائق طالب علم تھا، کبھی کوئی پوزیشن نہ لی تھی، لیکن اُن کی خصوصی توجّہ سے اپنی کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ مجھے یاد ہے، 20؍ دسمبر 1976ء کو جب ہمارے ہر دل عزیز استاد بی اے غنی ریٹائر ہورہے تھے، تو نہ صرف میری آنکھوں بلکہ وہاں موجود بیش تر طلبہ کے آنکھوں سے بے اختیارآنسو رواں ہوگئے کہ ایک ایسا قابل ترین استاد اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے سبک دوش ہورہا تھا، جو طالب علموں کے لیے مشعلِ راہ تھا، جس نے نئی نسل کی آب یاری، خونِ جگر سے کی اور کبھی اپنی محنت اور تدبّر کی نمائش بھی نہ کی۔ 

سرجی، ریاضی کے بڑے قابل ترین استاد تھے، خود اُن کے ریاضی کے استاد، نارائن دل نے، جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اُن کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مَیں نے ریاضی میں عبدالغنی جیسا ذہین اور خداداد صلاحیتوں کا حامل طالب علم نہیں دیکھا۔ مَیں ریاضی سے جنون کی حد تک لگائو رکھنے والے اس طالب علم سے متعلق پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ریاضی کی کتاب میں تو غلط جواب پرنٹ ہوسکتا ہے، لیکن عبدالغنی کا جواب غلط نہیں ہوسکتا۔‘‘ مجھے فخر ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں بابوعبدالغنی جیسے باصلاحیت، ذہین اور عالم فاضل استاد کی رہنمائی میسّر آئی اور ان کی رہنمائی ہی سے مجھ میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور شوق بڑھتا رہا۔

سرجی نے اپنے تعلیمی سفر میں ادیب عالم اور منشی فاضل کے امتحانات میں بھی نمایاں کام یابی حاصل کی اور پھر ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزارتے رہے۔ اُن کا مقصدِ حیات علم دوست ماحول پیدا کرناتھا، وہ جب تک حیات رہے، کتاب کےساتھ اپنا تعلق انتہائی مضبوط رکھا۔ علم اور کتاب کے رشتے کو وہ صحت مند معاشرے کی بنیاد قرار دیتے۔ کہا کرتے تھے کہ علم، عمر کے کسی بھی حصّے میں علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اورخود بھی تمام عمر علم کی تگ و دو میں لگے رہے، جس کا ایک بڑا ثبوت جدید علوم کی تعلیم تھا۔ 

انہوں نے فزکس اور کیمسٹری جیسے مضامین کا علم، غیر محسوس طور پراپنے بڑے بیٹے سے حاصل کیا۔ ان کے سب سے بڑے فرزند، انعام الحق نے، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی، تو بابوجی گاہے بگاہے اُن سے کیمیا اور طبیعات کے حوالے سے سوال و جواب کرتے اور اپنی ذہانت اورخداداد صلاحیتوں سے اُن سوالات کے جوابات اپنے ذہن کے گوشوں میں محفوظ کرلیتے۔ 

دل چسپ امر یہ ہے کہ کافی عرصے تک ان کے فرزندِ ارجمند یہ سمجھتے رہے کہ بابوجی شاید ان کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہے ہیں، مگر یہ راز اُس وقت کُھلا، جب اُن سے کیمیا اور طبیعات پڑھنے والے ایک طالب علم نے بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انہیں انگریزی، عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر مکمل عبور تھا، حالاں کہ اُن کی مادری زبان، پوٹھوہاری پنجابی تھی اور کسی بھی زبان میں بات کرتے وقت زبان پر اُن کی گرفت مضبوط رہتی۔ وہ میری صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے تقریری مقابلوں میں حصّہ لینے پر زور دیتے تاکہ میرے اندر اعتماد پیدا ہو۔ خاص خاص مواقع پرعالمانہ خیالات پر مبنی تقاریر بھی لکھ کردیتے۔

جب ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہوئے تو بحیثیت اکائونٹنٹ ایک نجی ادارے سے منسلک ہوگئے اور یہ ملازمت عُمر کے آخری حصّے تک چلتی رہی۔ معاملاتِ زندگی معمول کے مطابق چل رہے تھے کہ ایک روز اچانک اُن پر فالج کا حملہ ہوگیا، موت کو کون ٹال سکتا ہے، بلاشبہ اس کا ایک وقت معیّن ہے۔ سرجی کواسپتال میں داخل کیا گیا، تو گیارہ روز بے ہوشی کی کیفیت میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے یکم جنوری 1984ء کو اس دارِفانی سے کُوچ کرگئے۔اللہ رب العزّت میرے شفیق استاد کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ (مصباح عقیل، اسلام آباد)