عہدِ حاضر، ٹیکنالوجی کا عہد ہے، جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی پر اَن مِٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ایسے کتنے ہی شعبے ہیں، جنھیں ٹیکنالوجی نے یک سَر بدل دیا۔اور دیر ہی سے سہی، اس کے کرشماتی اثرات اب اردو ادب پر بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اردو رسم الخط کی موت کا اندیشہ، جس نے چند برس پہلے تک ہمیں ہلکان کر رکھا تھا، ٹیکنالوجی نے یوں حل کر دیا کہ اب ہمیں یاد بھی نہیں کہ کبھی یہ خدشہ اُردو دنیا کے سَر پر کسی عفریت کی طرح منڈلا رہا تھا۔
بحران کے دنوں میں پہلا اعلان یہ ہوا کہ’’ اردو کمپیوٹر کی زبان نہیں،سو، مستقبل کے منظر نامے میں، جلد یا بدیر، بے وقعت ہوجائے گی۔‘‘ موبائل فون، آئی پیڈ اور بعد ازاں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مقبولیت کے بعد دوسرا اعلان داغا گیا کہ’’اُردو کی، کم از کم رسم الخط کی سطح پر، موت یقینی ہے اور اب یہ فقط بولی کے طور پر باقی رہے گی۔‘‘ البتہ، جیسے ہی یونی کوڈ کے ذریعے اُردو سوشل میڈیا سے ہم آہنگ ہوئی، ان اعلانات کی بازگشت ماند پڑنے لگی اور جب یہ موبائل فون کی ٹیکنالوجی سے میل کھا گئی، تو یک دَم اِسے پَر مل گئے۔ اردو میں اظہارِ خیال کرنے والوں کی تعداد میں حیران کُن اضافہ ہوا۔ نیم خواندہ، ضعیف العمر افراد، جنھیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں اجنبی تصوّر کیا جاتا تھا،اب ٹیکنالوجی کی دنیا میں اردو رسم الخط سے اپنائیت محسوس کرنے لگے۔
یہ محض آغاز ہے۔ ٹیکنالوجی کے اثرات ہر گزرتے دن ہمیں چونکانے کے درپے ہیں۔ اب آپ اپنی تحریر لکھنے یا ٹائپ کرنے کی بجائے محض بول کر کمپوز حالت میں حاصل کرسکتے ہیں۔آپ کہتے چلے جائیں اور موبائل فون آپ کے خیالات کو اردو رسم الخط میں لکھتا چلا جائے گا۔ گو، یہ ٹیکنالوجی اپنی منزل سے کچھ دُور ہے، مگر یہ اب بھی آپ کو حیران کرسکتی ہے۔ عام صارف کے علاوہ یہ ادیبوں اور صحافیوں کے لیے بھی مؤثر ہے کہ وہ سہولت سے، بغیر وقت ضایع کیے تحریر کا ایسا ابتدائی خاکہ تیار کرسکتے ہیں، جو ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزر کر متوازن، مؤثر اور چُست ہوجائے گا۔اور اگر آپ اپنے کسی مضمون یا تحریر کو نئے زاویے سے لکھنے کے خواہش مند ہیں، تو آرٹی فیشل انٹیلی جینس آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔
انگریزی اور دیگر بڑی زبانوں میں چیٹ جی پی ٹی اور جمینائی جیسے لینگوئج ماڈلز سَر پٹ دوڑ رہے ہیں۔یہ پَلک جَھپکتے آپ کے خیالات و افکار کو ایک نیا ملبوس عطا کرسکتے ہیں۔ اردو کے عشّاق کو یہ جان کر مسرّت ہوگی کہ جمینائی تیزی کے ساتھ اُردو زبان کو سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کی قابلیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ گو ، فی الحال یہ غالب سا مصرع اور فیض سی نظمیں نہیں کہہ سکتا اور شاید کبھی کہہ بھی نہ پائے، مگر اُردو نثر کے میدان میں اِس کی کارکردگی قابلِ توجّہ ہے۔ چند برس بعد یہ کہاں ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
یہی جدید ٹیکنالوجی ادیبوں، لکھاریوں کو قریب بھی لے آئی ہے۔ اِس نے سرحدیں تحلیل کر دیں اور دنیا بَھر میں بسے اُردو ادیبوں کو رابطے کے ایک جدید، سستے اور تیز رفتار طریقے سے روشناس کروایا، جس کا چند برس قبل تصوّر بھی محال تھا۔ اب اپ واٹس ایپ یا فیس بُک میسنجر کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود قلم کار سے آڈیو یا ویڈیو رابطہ کرسکتے ہیں۔ زُوم اور اسٹریم یارڈ کے ذریعے ایسے مباحثوں اور مذاکروں کا انعقاد کیا جاسکتا ہے، جن پر شاید معمولی لاگت آئے، مگر قارئین و شائقینِ ادب، کسی بھی وقت اپنی سہولت کے مطابق، ان سے بلامعاوضہ استفادہ کرسکتے ہیں۔
اِس ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات ہمیں نشر و اشاعت کے میدان میں بھی دِکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کی متعدّد کتب گزشتہ چند برس میں بھارت سے شایع ہوئیں۔ اِسی طرح بھارتی ادیبوں کی تخلیقات پاکستان سے شایع ہو کر بیسٹ سیلر قرار پائیں۔خالد جاوید، مشرّف عالم ذوقی، رحمان عباس کے ناولز اس کی ایک مثال ہیں۔ اجمل کمال کا موقر جریدہ’’ آج‘‘ اب پاک و ہند کے قارئین کو باآسانی دست یاب ہے۔
اب ڈیجیٹل کتابوں کا تصوّر بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ایسے پلیٹ فارمز وجود میں آ رہے ہیں، جن کی سبسکرپشن حاصل کرکے آپ متعدّد کتابوں کی ای۔ بُکس سے استفادہ کرسکتے ہیں اور سیّد فصیح الدین احمد کا ادیب آن لائن ایسا ہی ایک پراجیکٹ ہے، جو اپنے اندر وسیع امکانات رکھتا ہے۔اُدھر بھارت میں Notnulموجود ہے۔ اُردو کی کم زور معیشت آڑے آتی ہے، ورنہ آڈیو بُک اور ویڈیو بُک سمری کے امکانات پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں۔
الغرض، ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات ادب کے مختلف شعبوں پر ظاہر ہورہے ہیں۔ البتہ، اُردو ادب کے تراجم کے میدان میں ابھی ہمیں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں، جن سے ہمارے فکری و ادبی ڈھانچے براہِ راست متاثر ہوئے۔اُردو فن پاروں کے مؤثر تراجم اور مناسب تشہیر نہ ہونے کے باعث ہمارا ادب عالمی قاری تک پہنچا، نہ ہی امریکی و یورپی اخبارات و جرائد اِس کی جانب متوجّہ ہوئے اور نہ ہی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر کہانیوں کے متلاشی پروڈکشن ہاؤسز کی نظر اردو ادب پر پڑی۔
یہ اسباب پیشِ نظر رکھے جائیں، تو کسی اُردو ادیب کے لیے بُکر یا نوبیل ایوارڈ کی آرزو دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔اگر معیاری تراجم اور مناسب تشہیر کا مرحلہ طے ہوجاتا، تو نہ صرف اُردو ادب کے دامن میں مزید امکانات در آتے، بلکہ ادب اور ادیب کی معیشت بھی بہتر ہوتی۔یوں ہمیں خود کو آنکنے کا حقیقی موقع میسّر آتا۔اور ہماری مایوسی اور خوش فہمی، دونوں میں سے کسی ایک کا ازالہ ہوجاتا۔
گو، سرکاری سرپرستی کے بغیر ہی ٹیکنالوجی اُردو رسم الخط میں نئی رُوح پھونک چُکی ہے۔تاہم، پھر بھی اُردو ادب کو دنیا کے سامنے لانے کی ذمّے داری حکومت اور فروغِ فن کے اداروں کو اُٹھانی ہوگی۔سرکار کی مؤثر سرپرستی اور مربوط منصوبہ بندی ہی وہ ذریعہ ہے، جس کی مدد سے اُردو نئی بستیوں تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔اِس میگا پراجیکٹ میں پہلا مرحلہ خلوص اور غیر جانب داری کے ساتھ اُردو کے بہترین ادب کا انتخاب کرنا ہے، جب کہ دوسرا مرحلہ اُسے توجّہ، ہنر مندی اور نفاست کے ساتھ انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں میں ڈھالنا ہے۔
تیسرا مرحلہ، جو پہلے دو مراحل سے زیادہ اہم ہے، وہ اِن تراجم کو مؤثر انداز میں عالمی دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔اِس ضمن میں فقط سرمایہ نہیں، فہم و فراست بھی درکار ہے۔پاکستانی ادب کو عالمی دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے سفارت خانے ایک اہم ذریعہ ہوسکتے ہیں۔البتہ، یہ بھی تسلیم کیجیے کہ تشہیر کے لیے امریکی اور یورپی ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ فارمز کو استعمال کیے بغیر چارہ نہیں۔
اگرعالمی اخبارات و جرائد تک رسائی نہیں حاصل کی جاتی، ان تراجم کی تشہیر میں عالمی شہرت یافتہ ادیبوں، نقّادوں کو شامل نہیں کیا جاتا، تو آپ کی تخلیقات کبھی اُن قارئین تک نہیں پہنچ پائیں گی، جو اُردو ادب کی معیشت کو حقیقی معنوں میں مستحکم کرسکتے ہیں۔مگر یہ سب تب ہی ممکن ہے، جب ادب ہماری حکومتوں کی ترجحات میں شامل ہو۔ اور حکومتی ترجیحات کیا ہیں، اِس فہرست میں ادب کس نمبر پر ہے؟ اس کا جواب آپ پر چھوڑتے ہیں۔