• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اربوں ڈالرز کی ذکوۃٰ، مگر مسلم دنیا میں غربت کے ڈیرے

زکوٰۃ مالی عبادات کا ایک اہم ستون ہے، جو اسلامی معاشرے کی خوش حالی اور باہمی اخوّت کا بھی ضامن ہے۔جب نبی کریم ﷺ نے ریاستِ مدینہ میں انسانیت کا پہلا معاشی نظام رائج کیا، تو زکوٰۃ اُس کا ایک اہم حصّہ تھی، جس کا بنیادی مقصد امیروں سے پیسے لے کر ضرورت مندوں، محتاجوں اور مساکین پر خرچ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر معاشرے کا ایک فعال حصّہ بن سکیں۔ اِس طرح رفتہ رفتہ امارت اور غربت کے درمیان فاصلے کم ہونے لگے۔ اِس سلسلے میں خلفائے راشدینؓ کے دَور کا ایک واقعہ برکاتِ زکوٰۃ کے ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔

حضرت معاذ بن جبلؓ کو9 ہجری میں یمن کا گورنر بنا کربھیجا گیا اور وہ چار سال تک اِس منصب پر فائز رہے۔ اِس عرصے میں اُنہوں نے صاحبِ نصاب افراد سے زکوٰۃ وصول کرکے اُسے وہاں کے محتاجوں، مساکین اور ضرورت مندوں پر صَرف کرنے پر خصوصی توجّہ دی۔نیز، زکوٰۃ سے حاصل شدہ رقم کا ایک حصّہ مرکزی بیت المال کے لیے بھی باقاعدگی سے بھیجتے رہے۔

یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا، جب اُنھوں نے جزوی رقم کی بجائے وصول کردہ زکوٰۃ کی پوری رقم مرکزی بیت المال میں بھیج دی۔ اُس وقت حضرت عُمر فاروقؓ منصبِ خلافت پر رونق افروز تھے، تو اُنھوں نے پوری رقم بھجوانے کی وجہ دریافت کی، جس پر حضرت معاذ بن جبلؓ نے کہا کہ’’اب یمن میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا، جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہو۔‘‘مؤرخین کے مطابق، حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں تمام صوبوں کا یہی حال تھا۔ شام، عراق، فلسطین، بحرین اور مصر سے مدینہ منوّرہ زکوٰۃ کی اِتنی مقدار آتی کہ حضرت عُمرؓ حیران رہ جاتے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ نظامِ زکوٰۃ کس قدر مؤثر اور برکات کا حامل ہے۔

عہدِ حاضر میں…

خلافتِ راشدہؓ کے بعد کے ادوار میں جب اسلامی حکومتیں ملوکیت میں تبدیل ہوگئیں، تو اسلامی اور دینی نظام کے آثار ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوگئے اور زکوٰۃ کا نظام بھی اپنی اصلی حالت میں برقرار نہ رہ سکا اور آج حالت یہ ہے کہ اگرچہ دنیا میں اسلامی ممالک کی تعداد لگ بھگ پانچ درجن ہے،جب کہ قدرت نے اسلامی دنیا کو بے بہا قدرتی خزانوں سے بھی مالا مال کر رکھا ہے، اِس کے باوجود، اسلامی ممالک کی کثیر آبادی غربت اور بدحالی کا شکار ہے، یہاں تک کہ عوام کی اکثریت خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

اِس امر میں شک نہیں کہ اسلامی دنیا میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں، جن کی فی کس آمدنی ترقّی یافتہ ممالک کے برابر ہے، لیکن ایسے چند ممالک کے سِوا باقی ممالک کی صُورتِ حال کسی طور تسلّی بخش نہیں۔البتہ، اِس صُورتِ حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ صدیوں کے نشیب و فراز کے باوجود اسلامی عبادات کا ایک اہم ستون، زکوٰۃ کا نظام آج بھی مسلم معاشرے میں موجود ہے اور دنیا بَھر میں ہر سال اِس مَد میں اربوں ڈالرز جمع ہوتے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اِس قدر فنڈنگ کے باوجود اسلامی ممالک میں غربت کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے؟اِس سلگتے سوال پر غور و خوض حال ہی میں انڈونیشیا کے مغربی صوبے جاوا کے صدر مقام، بندونگ میں’’ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘‘ کے زیرِ اہتمام ہونے والی ’’ورلڈ زکوٰۃ فورم کانفرنس‘‘ میں کیا گیا۔

کانفرنس میں57 اسلامی ممالک کے نمائندگان شریک ہوئے، جن میں سے 24 ممالک کے نمائندوں نے اِس امر کا اعتراف کیا کہ گلوبل زکوٰۃ فنڈ (جو کہ عالمی سطح پر مختلف تنظیموں کے ذریعے زکوٰۃ جمع کرنے اور اسے خرچ کرنے کا ایک ادارہ ہے)اسلامی ممالک میں غربت ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اِس کانفرنس میں یونیسیف کے ایمرجینسی ریلیف سینٹر کے ڈائریکٹر، سکندر خان نے بتایا کہ’’ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق، دنیا میں اسلامی ممالک اور مخیّر افراد کی طرف سے جو رقم موصول ہوتی ہے، اس کی مقدار 600بلین ڈالرز سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔‘‘ لیکن کانفرنس میں اِس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ یہ خطیر رقم منظّم اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت خرچ نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے اسلامی ممالک میں غربت کم نہیں ہو پا رہی۔

مہاجرین کے کیمپس میں کسمپُرسی کی زندگی بسر کرنے والوں کی حالتِ زار بھی کوئی بہتری دِکھائی نہیں دیتی۔ بندونگ کانفرنس کے شرکاء نے اِس صُورتِ حال کو اسلامی ممالک کے لیے ایک لمحۂ فکریہ قرار دیا کہ جو زکوٰۃ کی مَد میں کثیر رقوم دینے کے باوجود ہم عام مسلم آبادی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکے۔ ورلڈ زکوٰۃ فورم کے اِس اجلاس میں 33 ممالک کے زکوٰۃ جمع کرنے والے رفاہی اداروں نے بھی شرکت کی۔ مقرّرین کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر اعداد و شمار مرتّب کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوٰۃ کی اُس رقم سے، جو مختلف ممالک میں رفاہی اداروں میں تقسیم کی جاتی ہے، مسلمان آبادی کے معیارِ زندگی میں کتنی بہتری آئی۔ 

کانفرنس کے ایگزیکٹیو سیکریٹری آف فورم نے کہا کہ بیش تر اسلامی ممالک کے عوام کسی رفاہی ادارے یا حکومت کو زکوٰۃ دینے کی بجائے اپنے طور پر مستحق افراد میں زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ دینے والوں کی اکثریت یہ جانچنے میں ناکام رہتی ہے کہ وہ جس شخص کو زکوٰۃ دے رہے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں اس کا مستحق ہے بھی یا نہیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بیش تر ممالک میں زکوٰۃ کی ادائی کے قوانین نہیں ہیں اور یہ سارا کام غیر منظّم طور پر ہوتا ہے۔ دنیا بَھر میں لوگوں کی اکثریت انفرادی طور پر زکوٰۃ دینے کو ترجیح دیتی ہے۔ 

شرکاء نے اِس موقعے پر اقوامِ متحدہ کے متعدّد ذیلی اداروں یونیسیف، چلڈرن فنڈ وغیرہ کی مثالیں پیش کیں، جو ایک منظّم لائحۂ عمل کے تحت کام کرتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ اُن کی خدمات کے ثمرات زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچتے ہیں۔ اِس اجلاس میں بعض ایسی مثالیں بھی دی گئیں، جن میں فلاحی اور صنعتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر کے عوام کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچائے گئے۔ جیسے انڈونیشیا کے ایک شہر، جامبی میں زکوٰۃ فنڈ سے ایک پاور پلانٹ لگایا گیا، جس سے چار قصبوں کے 8سو سے زائد گھروں کو انتہائی سستے داموں بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ اِسی طرح 2017ء میں زکوۃ کی رقم سے قائم کیے جانے والے ایک پراجیکٹ کے تحت 5سو گھروں کو سستی بجلی کی سہولت فراہم کی گئی۔

اِس اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے زکوۃ کی وصولی اور اس کی تقسیم و ترسیل کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا۔ اِس سلسلے میں بھارت کی زکوٰۃ فائونڈیشن نے پہل کر کے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ فائونڈیشن کا زکوٰۃ وصولی اور اس کی تقسیم کا بیش تر کام ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتا ہے، جس کے تحت زکوٰۃ دینے اور لینے والوں کو دفاتر یا بینکس میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ تمام کام آن لائن ہوتا ہے۔نیز، اِس طرح زکوٰۃ کی تقسیم میں شفّافیت بھی آتی ہے۔ 

بھارت میں ہر سال 7800کروڑ روپے سے زیادہ زکوٰۃ جمع ہوتی ہے۔انڈونیشیا میں 2020ء سے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا 30فی صد کام ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو رہا ہے، لیکن کانفرنس میں اِس بات کی بھی نشان دہی کی گئی کہ بیش تر اسلامی ممالک میں غربت اور شرحِ خواندگی میں کمی کی وجہ سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر عمل درآمد مشکل ہے، تاہم مستقبل میں اِس سے ضرور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ 

کانفرنس میں گھانا میں زکوٰۃ و صدقات ٹرسٹ کے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ گھانا کی مسلمان آبادی کے 70فی صد افراد اَن پڑھ ہیں، اِس لیے وہاں فی الحال اِس قسم کی ٹیکنالوجی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ دنیا بَھر میں زکوٰۃ کی وصولی، تقسیم کا کام ایک مربوط و منظّم طریقے اور مضبوط اداروں کے ذریعے ہونا چاہیے تاکہ امداد حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچ سکے۔ اِس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے ادارے UNHCR کی مثال دی گئی، جو دنیا بَھر میں مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔

مہاجرین کی امداد

2022ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے، یو این او ہائی کمشنر فار ریفیوجیز نے اندازہ لگایا تھا کہ دنیا بَھر میں مہاجرین کی فلاح وبہبود کے لیے کم از کم 9ارب ڈالرز درکار ہیں(اِن مہاجرین میں اب غزہ کے بے گھر ہونے والے بچّے، عورتیں اور مرد بھی شامل ہو گئے ہیں) اورمہاجرین کے لیے3ارب ڈالرز کے اخراجات دنیا بَھر سے اکٹھی ہونے والی زکوٰۃ یا صدقات سے پورے کیے گئے۔ اِس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زاید مسلمان مختلف ممالک کی سرحدوں پر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بے گھری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور زکوٰۃ و صدقات کا بیش تر حصّہ اُن کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی عالمی زکوٰۃ فنڈ کے تحت اکٹھی ہونے والی زکوٰۃ کی رقم اِتنی زیادہ ہے کہ اس کی منصفانہ تقسیم سے کروڑوں افراد کو خطِ غربت سے نکالا جاسکتا ہے۔

بشرط یہ کہ یہ کام کسی ضابطے اور مضبوط و مستحکم اداروں کے ذریعے ہو۔بندونگ کانفرنس نے عہدِ حاضر میں زکوٰۃ کی وصولی کے عالمی منظر نامے پر جہاں کئی سوالات اُٹھائے، وہیں متعدّد سفارشات اور قراردادوں سے بہتری کی کئی راہیں بھی کھولیں۔ کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر زکوٰۃ وصولی کا نظام عالمی سطح پر بہتر اور مؤثر ہو، تو 600ارب ڈالرز سالانہ سے کہیں زیادہ رقم اکٹھی کی جاسکتی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے اِس بات کی طرف بھی توجّہ دلائی کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں زکوٰۃ سے متعلق سرکاری قوانین موجود نہیں اور بہت کم ممالک ایسے ہیں، جہاں سرکاری طور پر زکوٰ ۃ اکٹھی ہوتی ہے، اِن ممالک میں پاکستان، لیبیا، ملائیشیا، سعودی عرب، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ 

کانفرنس کے مطابق’’لوگ سرکاری اداروں پر بہت کم اعتماد کرتے ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے، جیسے سیلاب کا منہ زور پانی کنارے توڑ کر اِدھر اُدھر پھیل جاتا ہے اور فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ جب کہ اگر سیلابی پانی پر بند باندھ کر یا ڈیم بنا کر اُسے ذخیرہ کرنے کے بعد استعمال کیا جائے، تو یہ خوش حالی اور فائدے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ جن ممالک میں زکوٰۃ رضا کارانہ طور پر تقسیم کی جاتی ہے، ان میں بحرین، بنگلا دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، اردن، کویت، لبنان، عرب امارات اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ یورپی اور شمالی امریکا میں عوام اپنے طور پر اسلامی رفاہی اداروں اور این جی اوز کے ذریعے زکوٰۃ دیتے ہیں اور بیش تر کام آن لائن ہوتا ہے۔

بیرونِ مُلک رہنے والے پاکستانیوں کی اکثریت ماہِ صیام میں پاکستان میں مقیم اپنے رشتے داروں کے ذریعے زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرتی ہے اور جہاں امداد یا خیر خیرات کی ضرورت ہو، وہاں وہ ضرورت مند عزیز و اقارب کو نہیں بھولتے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک اور عید کے موقعے پر بیرونِ ممالک سے ترسیلاتِ زر میں کئی گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستانی جہاں کہیں بھی ہوں، عمومی طور پر وہ خدا ترس اور انسانی ہم دردی سے لب ریز نظر آتے ہیں۔

برطانیہ میں، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، چند برس قبل کی ایک ریسرچ کے مطابق، 10میں سے تین مسلمان کارِ خیر کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ چار ہزار افراد سے پوچھے گئے سوالات کے مطابق، برطانوی مسلمان سالانہ اوسطاً 6سوڈالرز زکوٰۃ یا صدقات و خیرات کی مَد میں خرچ کرتے ہیں، جب کہ یہودیوں میں یہ شرح 412ڈالر، پروٹسٹنٹ میں 308، کیتھولک میں 272اور لادینوں میں177 ڈالر ہے۔ 

ایک مالیاتی ماہر کے مطابق،’’2012ء میں دنیا میں ہر سال زکوٰۃ کی مَد میں اکٹھی ہونے والی رقم کی تعداد 2سو ارب ڈالرز تھی، جو کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے انسانیت کی بھلائی کے لیے مختص کی جانے والی رقم سے 15گُنا زیادہ تھی۔‘‘ اور مالیاتی ماہر کے مطابق، اِتنی بڑی رقم کے غیر مؤثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی تقسیم کا نظام بدنظمی اور عدم منصوبہ بندی کا شکار ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک کی ایک چوتھائی آبادی آج بھی غربت اور بدحالی کا شکار ہے۔

یقیناً 2024ء میں بھی زکوٰۃ کی مَد میں عالمی سطح پر اربوں ڈالرز اکٹھے ہوئے ہوں گے، جب کہ یہاں پاکستان میں بھی مخیّر اور صاحبِ ثروت افراد اربوں روپے زکوٰۃ و صدقات کے طور پر تقسیم کرتے ہیں۔تاہم، پاکستان ہو یا کوئی اور مُلک، زکوٰۃ اور صدقات و خیرات سے جمع ہونے والی خطیر رقم اگر باقاعدہ منصوبہ بندی اور کسی مربوط نظام کے تحت اِس نقطۂ نظر کے تحت تقسیم کی جائے کہ عوام کے کھانے پینے کی ہنگامی اور فوری ضرورت عارضی طور پر پوری کرنے کی بجائے وہ مستقل طور پر خُود کمانے کے قابل ہو سکیں، تو نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی معاشرتی و اقتصادی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔