’’کوئی جبر اتنا سفاک یا دیر پا نہیں ہوتا جتنی قانونی اتھارٹی کی کج روی اور زیادتی سے ہونی والی اذیت ۔‘‘ (جوزف ایڈیسن)
ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب کوئی پیشہ ور ادارہ بھی کم سے کم درجے کی دیانت، شفافیت ، صلاحیت اور کارکردگی نہیں دکھا پارہا ۔ ہم اس افسوس ناک صورت حال سے دوچار ہیں، لیکن پھر بھی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جس کی طرف ہم انتہائی جبر اور اذیت کے سایوں تلے دیکھ سکتے ہوں کہ وہ اس خوفناک مشکل کوٹال سکتی ہے ۔کیا ا س لیے کہ ہم لامتناہی طور پر مہر بلب ہیں، ہمارے الفاظ گم ہیں ، ہماری گردنیں رسیوں سے جکڑی ہوئی ہیں اور ہمارے جسم زنجیروں سے اسیر ہیں ؟لیکن برمحل سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ایسی اذیت برداشت کرسکتے ہیں اوربطور افراد اورقوم اس غلامی سے نکلنے کیلئے ہمیں کیا درکار ہے ؟ یہ ہماری آزادی ہے جو پاکستان کو آزادی، قانونی جواز اور اقوام کی برادری میں ساکھ کو یقینی بناتی ہے ۔ ایسا کرنے میں ناکام رہنے پر ہم عالمی طاقتوں کے معاشی اور تزویراتی پنجوں میں جکڑے رہتے ہیںجن کے ساتھ ہم نے شاید ہمیشہ رہنے والا غلامی کا معاہدہ کررکھا ہے ۔ یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے کہ چوری شدہ انتخابات کی کہانیوں کی بازگشت اب پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے جس کا تکلیف دہ اظہار مختلف صورتوں میں ہورہاہے ۔ بنائے جانے والے بہت میمز ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں کہ ہم اتنے دھوکے باز ہیں کہ ایک آزاد اور شفاف الیکشن بھی نہیں کراسکتے ۔ حال ہی میں ایساواقعہ امریکی کانگریس کمیٹی برائے امور خارجہ میں پیش آیا جہاں انتخابات کے انعقاد پر کئی ایک تبصرے پڑھے گئے ۔ ان میں ایک بھی ہمارے لیے خوش گوار نوعیت کا نہیں تھا ۔ بحث اس بات پر ہورہی تھی کہ پاکستان پر کتنا اور کس طرح کا دبائو ڈالا جائے کہ انتخابی عمل کے دوران نصف شب کو ووٹ چرائے جانے کی فوری تلافی ممکن ہوسکے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ درحقیقت انتخابات کے انعقاد میں کیا جانے والے ہر نیا تجربہ اور ہمارے اداروں کا کردار ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شرمندگی اور اذیت کا باعث بنا ۔ پھر بھی ہم انہی راہوں پر چلتے رہتے ہیں جیسے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ، اور یہ کہ لوگ اس انتخابی فراڈ سے بھی اُسی طرح سمجھوتہ کرلیں گے جیسے وہ ماضی میں کرتے چلے آئے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، انسانی اذیت کی ایک حد ہوتی ہے ،اورانسان ایک حد تک ہی تکلیف برداشت کرسکتاہے ۔ ایک مرتبہ جب یہ حد پار ہوجاتی ہے ،جیسا کہ ہوچکی ہے ، تو پھر باغیانہ جذبات ابلنے لگتے ہیں جو عوام کو مزاحمت کا راستہ دکھا سکتے ہیں ۔ کئی ایک وجوہ کی بنا پر ہم ان جذبات کو محسوس کر رہے ہیں،جس کی ایک بڑی وجہ غربت اوربے بسی کا احساس ہے۔
ہم اس وقت اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا ہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے بے چین لوگ ہیں جو اپنے مینڈیٹ پر کی جانے والی انتخابی دھاندلیوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسے تبدیل کیا جائے ۔ لہٰذا، تصادم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جس کے ملک کیلئے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ہم لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے ہوئے بہت سی سرخ لکیریں عبور کر چکے ہوں، لیکن پھر بھی لاوا پھٹنے سے پہلے پیچھے ہٹنے کی گنجائش باقی ہے۔ تاہم اس کے کچھ تقاضے ہیں:یہ کہ انتخابی دھاندلی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے ایک قابل اعتماد اور شفاف مداوایقینی بنایا جائے۔ اگر ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ جذبات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنےکیلئے صرف اپنی ضد چھوڑنے کی ضرورت ہے ۔
ریاست کا ڈھانچہ جس میں اسکے باشندوں کی مرضی اور جذبہ شامل نہ ہو، ترقی سے زیادہ تباہی کا نسخہ ہے۔ ہم ایک بار پھر ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ اندرونی کشمکش اور انتشار کی وجہ سے ایک طرف ہم خستہ حال ہیں ، دوسری طرف لوگ اپنا مینڈیٹ چوری ہونے پر مشتعل ہیں۔ لیکن اس باروہ ان ڈرامہ رچانے والوں کو پیچھے دھکیلنے اور ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے علاوہ کسی چیز پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں جسے انھوںنے اپنے ووٹ سے منتخب کیا تھا ۔ ان کا خیال ہے کہ معاملہ اب یا کبھی نہیں تک پہنچ چکا ہے ۔
میری دانست میں اداروں کے درمیان تصادم کا یہ خدشہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے موقع میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جائے جب کہ ریاست اور اس کے ادارے اُن کے فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرلیں اور انھیں ملک کو اپنے جذبے ، محنت اور لگن کے ساتھ آگے لے جانے کا ایک موقع دیں۔ بدقسمتی سے اس ملک کے لوگ تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کسی طرف سے روشنی کی کوئی کرن اُن تک نہیں پہنچتی ۔ تو کیوں نہ ریاست انھیں وہ روشن دان فراہم کردے جہاں سے روشنی ان کی زندگیوں کو آزادی اور حقیقی جمہوریت کے امکانات سے منور کردے ۔ انھیں بااختیار بننے دیں تاکہ وہ ایسی پائیدار بنیاد استوار کریں جس پر ریاست کی مضبوط عمارت قائم ہو سکے۔ جبر اور قہر کی بجائے افہام و تفہیم اور ہمدردی کو موقع دیا جائے۔ عوام کی حمایت سے محروم ریاست بے اختیار ہوتی ہے اور حکمرانی کا جواز کھو دیتی ہے۔ آئیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم اس مرحلے تک نہ پہنچیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے عوام کے درمیان تعلقات کواز سرنوبحال کیا جائے۔ ان کے حقوق غصب کرنے سے ایسا نہیں ہو گا۔ ایسا تب ہی ہو گا جب انھیں حقوق ملیں گے اور ریاست مہیب آمر کی بجائے شفیق سرپرست بن جائے۔
آخری فتح تو بہرحال عوام کی ہی ہوگی، لیکن مہربان ریاست اس فتح کی سرپرست بن جائے تو اس کی مٹھاس بڑھ جائے گی ۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)