• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے کے بعد آج ہی کراچی واپس آیا ہوں۔ یہ دو ہفتے میری زندگی کے اہم ترین لمحات تھے جس میں، میں نے ملک کے اہم آئینی عہدوں کے انتخابات اور قانون سازی میں حصہ لیا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفی شاہ، وزیراعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر سینیٹ ممبران کا انتخاب کیا اور ایوان صدر میں انکی حلف برداری کی پروقار تقاریب میں شرکت کی جس میں افواج پاکستان کے سربراہان اور ملک کی اہم ترین شخصیات مدعو تھیں۔ اس دوران مجھے احساس ہوا کہ عوام کے منتخب قومی اسمبلی کے رکن کی آئین میں کتنی اہمیت ہے جو ملک کے اہم ترین عہدوں کیلئے موزوں شخصیات کا انتخاب کرتا ہے ۔ میں اپنے کالموں اور ٹی وی انٹرویوز میں بزنس کمیونٹی اور عوامی مسائل پر حکومت کی توجہ دلاتا رہا ہوں لیکن میں نے پہلی بار پارلیمان میں پالیسی سازی میں حصہ لیا۔ اس دوران روزانہ میری ملاقاتیں صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کے نئے وزراء سے ہوتی تھیں جس میں، میں نے انہیں ملکی اور بزنس کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا جس کے نتیجے میں شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایکسپورٹرز کے 10دن میں سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کا اعلان کیا۔ ایف بی آر نے مجھے بتایا کہ وہ اب تک 65ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگیاں کرچکا ہے اور تمام چیف کمشنرز کو بقایا ریفنڈز 30دنوں میں ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ وزیراعظم کی پہلی تقریر میں معیشت انکی اولین ترجیح نظر آئی ۔ انہوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز، آئی ٹی، نوجوانوں کیلئے قرضے، سی پیک منصوبوں کی بروقت تکمیل، SIFC کے تحت سول ملٹری قیادت کے ساتھ مل کر منصوبوں کی تکمیل، متبادل توانائی کے منصوبوں کے فروغ اور توانائی اور ٹیکس سیکٹرز میں اصلاحات کو حکومتی ترجیحات قرار دیا جو خوش آئند ہے۔ انہوں نے ان تمام دوست ممالک جن میں امریکہ، چین، یورپی یونین، خلیجی ممالک، ترکی، ایران شامل ہیں، سے اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جو اچھی خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے پاکستان کا دورہ کرنے والے IMF وفد کے مشن چیف نیتھن پورٹ سے ملاقات کی اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات کے بارے میں بتایا۔ IMF نے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کو مثبت قرار دیا اور حکومت سے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے، اخراجات میں کمی اور فرٹیلائزر انڈسٹری کو سستی گیس کی فراہمی ختم کرنے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران ایک نجی عشایئے میں مطلوبہ اصلاحات پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے بلاول بھٹو کی توجہ آئی پی پیز کے ان نئے معاہدوں پر دلائی جن کی اب بھی پرانی شرائط پر تجدید ہورہی ہے جس میں بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی قومی خزانے پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے جو گردشی قرضوں میں روز اضافہ کررہا ہے۔ IMF کے اخراجات میں کمی کے مطالبے پر بلاول بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت 17وزارتوں کو ختم کرکے 300ارب روپے سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں IMF کے موجودہ پروگرام کے تیسرے جائزے کے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور اپریل میں IMF کی بورڈ میٹنگ کے بعد 1.1ارب ڈالر کی تیسری قسط جاری ہوجائے گی جس کے فوراً بعد حکومت پاکستان نے IMF سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سے 5سال کے نئے طویل المیعاد توسیعی فنڈز سہولت (EFF) کے منصوبے کی درخواست کی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق قرضے کے نئے پروگرام کے تحت بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوجائیں گی اور ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کردی جائے گی اور ان تمام مشکل شرائط کا آنے والے بجٹ میں اعلان کرنا ہوگا۔ IMF نے بجلی اور گیس چوری کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال IMF کے مذاکرات کو طول دے سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے IMF کو خط لکھا تھا کہ پاکستان کے قرض پروگرام کو الیکشن آڈٹ سے مشروط کیا جائے لیکن IMF کی پالیسی سیاست سے علیحدہ رہنے کی ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے شوکت ترین اور تیمور سلیم جھگڑا نے ماضی میں IMF کا قرض پروگرام معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں تحریک انصاف کے حامیوں نے واشنگٹن میں IMF کے ہیڈ آفس کے سامنے پاکستان کو قرض دینے پر مظاہرہ کیا۔ یہ صورتحال ملکی مفاد میں نہیں۔ IMF سے قرض نہ ملنے کی صورت میں نہ صرف بیرونی ادائیگیاں متاثر ہوں گی بلکہ زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کے باعث روپے کی قدر گرجائے گی جو ملک میں مزید مہنگائی کا سبب بنے گا۔ ہمیں سیاسی اختلافات کو حدودمیںرکھنا ہوگا کیونکہ ملک ہے تو سیاست ہے لہٰذا ہمیں اپنے قومی مفادات کی حدوں کا احترام کرنا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی نومنتخب حکومت ملک کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے میں کامیاب ہوگی تاکہ غریب عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔

تازہ ترین