• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی وزارت تجارت کے وفد کا پاک افغان دوطرفہ تجارت میں رونما ہونے والے مسائل پر بات چیت کیلئے دورۂ کابل، دونوں ملکوں کے روابط میںدر آنے والی سردمہری کو دورکرکے باہمی تعلقات کو ازسرنو خوشگوار بنانے میں امید ہے کہ نہایت معاون ثابت ہوگا۔پاکستانی وفد دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر ٹرانسپورٹروں اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مشترکہ اقدامات پر مذاکرات کرے گا۔ اس حوالے سے افغانستان کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے افغان وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد کا کہناتھا کہ اسلام آباد کی غیرضروری پابندیوں نے کاروبار کو تقریباً ناممکن بنادیاہے ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک سال پہلے پاکستان سے یومیہ تقریباً ڈیڑھ سے دو ہزارٹرک افغانستان میں داخل ہوتے تھے تاہم غیر ضروری پابندیوں پر مبنی نئے قوانین نے کاروبارپر نہایت منفی اثر ڈالا ہے جس سے پاکستانی ٹرکوں کی تعداد بمشکل 700رہ گئی ہے۔اس صورت حال کو سمجھنے کیلئے پاک افغان تعلقات کے پس منظر کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔صدیوں سے تاریخی ، تہذیبی، نسلی ، مذہبی اور جغرافیائی رشتوں میں منسلک پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات پچھلے چار پانچ عشروں کے دوران مثالی بلندیوںتک پہنچے۔ افغانستان پر یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتوں نے فوج کشی کی اور لاکھوں افغان گھرانوں کو ملک چھوڑنا پڑا تو پوری پاکستانی قوم نے ان کا استقبال کھلے بازوئوں اور کشادہ دلوں کے ساتھ کیا۔ ملک بھر میں ان کو نقل و حرکت اور کاروباری سرگرمیوں کی مکمل آزادی حاصل رہی۔ عشروں طویل مدت میں چالیس پچاس لاکھ افغان مہاجر عملاً پاکستانی قوم کا حصہ بن گئے۔ بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والی افغان تحریک کو پاکستانی عوام کی دلی ہمدردیاں حاصل رہیں۔ پہلی جارحیت کے خلاف افغان مزاحمت کی کامیابی کے بعد تحریک طالبان کی قیادت میں ملک میں ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی تو پاکستان اور افغانستان عملاً یک جان دو قالب بن گئے ‘ نائن الیون کے بعد افغانستان کو دوسری جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کو بھی دہشت گردی کے عفریت کے ہاتھوں بھاری جانی نقصانات اٹھانا پڑے تب بھی افغان بھائی بہنوں کے لیے اہل پاکستان کے دلوں میں کوئی تنگی پیدا نہیں ہوئی اور وہ بیرونی جارحیت کے خلاف افغان بھائیوں کی فتح مبین کے آرزو مند رہے۔حتیٰ کہ دو عشروں پر محیط یہ جنگ غیرملکی افواج کی رسوا کن واپسی پر ختم ہوئی اورجارحیت کے خلاف کامیاب مزاحمت کرنے والی تحریک طالبان برسراقتدار آئی۔ پاکستان کو توقع تھی کہ افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات اب نئی بلندیوں تک پہنچیں گے خصوصاً افغان حکومت اپنی سرزمین کے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے کا فوری اور مکمل خاتمہ کرسکے گی لیکن مسلسل وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود یہ امید اب تک پوری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کیلئے سخت اقدامات ناگزیر ہوگئے اور دوطرفہ تجارت بھی انکی وجہ سے متاثر ہوئی۔ تاہم یہ صورت حال دونوں ملکوں کیلئے نہایت نقصان دہ ہے اور اس کا جلد ازجلد بہتر بنایا جانا دونوں ملکوں کے معاشی مفادات کا فوری تقاضا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے تجارتی وفد کا دورہ کابل اس سمت میں مثبت پیش رفت کا ذریعہ بنے گا ۔ پاکستانی وفد افغان بھائیوں کی جائز شکایات پر پوری توجہ دیتے ہوئے ان کے ازالے کیلئے حکومت پاکستان کو مؤثر اقدامات تجویز کرے گاجبکہ افغان حکام بھی دہشت گردی اور دیگر حوالوں سے پاکستان کی جائز شکایات دور کرنے کی خاطر نتیجہ خیز اقدامات عمل میں لائینگے اور یوںدونوں برادر ملکوں میں تجارت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم و پرجوش روابط کا نیا دور شروع ہوگا۔

تازہ ترین