• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وسیع تر زرعی، صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے حامل وطن عزیز میں ہر سال محصولات کے اہداف مطلوبہ حجم سے بہت کم مقرر کرنے اور وہ بھی پورا نہ ہونے کا رجحان گرتی ہوئی معیشت کوبالآخر اس نہج پر لے آیا اور حکومت یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اگر اب بھی نظام میں اصلاحات نہ لائی گئیں تو 64ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں کی واپسی کہاں سے کرینگے اور کمزورمعاشی نظام کیسے چلائیں گے۔اسی اثنا میں اصلاحات کی طرف پہلاقدم اٹھائے جانے کے دوران ٹیکس وصولی میں 58کھرب روپے کا ہوش اڑا دینے والا فرق سامنے آیا ہے جو جی ڈی پی کا 6.9فیصد بنتا ہے۔وزیراعظم شہبازشریف دو روز قبل محصولات کی مد میں 9کھرب روپے کے تخمینے کو 14کھرب پر لیجانے کا تقاضا کر رہے تھے۔اب مرض کی تشخیص کے بعد اسکا مناسب علاج کرنا عین ممکن ہوگیا ہے۔اقتصادی ماہرین ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے اور نازک مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو جو مشورہ دے رہے ہیں، اسکے مطابق فیڈرل پالیسی بورڈ، ٹیکس پالیسی آفس کی علیحدگی ،جوائنٹ ویلیوایشن ،کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی علیحدگی، نادرا سے تعاون،پی آر اے ایل کی تنظیم نو ، ڈیجیٹلائزیشن،تاجر دوست ریٹیلرز اسکیم ، دستاویزی قانون اور جدید نگرانی کا ڈھانچہ آسانی سے سمجھ آجانیوالی تجاویز ہیں جنھیں ایف بی آر کی تنظیم نو میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ان اقدامات سے عام آدمی ناقابل برداشت مہنگائی سےکسی تک چھٹکارا پاسکے گا بشرطیکہ اشرافیہ کو دی گئی مراعات اور پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں گزشتہ تین چار برسوں میں ہونیوالا اضافہ واپس لینے اور ٹیکس نیٹ میں پائی جانیوالی 66فیصد کمی دورکرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔اسکے علاوہ معدنیات اور سیاحت کے شعبوں کو فعال بنانا ناگزیر ہوچکا ہےجس سے ملک میں روزگار کے مواقع اور معاشی سرگرمیاں بڑھیںگی۔

تازہ ترین