• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دینے کے 5ماہ بعد بالآخر عالمی امن کے ضامن ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں رمضان المبارک کے دوران عارضی جنگ بندی کے لئے ایک پھسپھسی سی قرارداد امریکہ کی رضا مندی کے بغیر منظور کرلی ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت منظور نہیں ہوئی اس لئے کسی بھی رکن ملک کے لئے اس کی پابندی ضروری نہیں ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کا ’’مشن‘‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔ قراردادمیں جس کی زبان کو مبصرین نے نہایت کمزورقرار دیا ہے۔ فائربندی کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی اور بے گھر فلسطینیوں کے لئے امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اسے کونسل کے دس منتخب ارکان نے پیش کیا اور چار مستقل ارکان کی حمایت سے منظور کر لی گئی۔ امریکہ نے اتنی مہربانی کی کہ اسے پچھلی قراردادوں کی طرح ویٹو نہیں کیا لیکن ووٹنگ میں حصہ بھی نہیں لیا۔ اسرائیل اس پر امریکہ سے ناراض ہوگیا اور اپنے ایک وفد کو امریکہ کے دورے پر جانے سے روک دیا جو چند روز میں واشنگٹن روانہ ہونے والا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ امریکہ نے قرارداد کو ویٹو نہ کرکے ’’ہماری کوششوں‘‘ کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ امریکہ نے عذر پیش کیا ہے کہ قرارداد کے خلاف ووٹ نہ دینے کے باوجود اس کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ قرارداد عملی طور پر دو ہفتے سے بھی کم وقت کے لئے ہے کیونکہ نصف رمضان تو گزر گیا۔ اسی طرح کا ایک وقفہ کچھ عرصہ پہلے بھی دیا گیا تھا مگر اسرائیل نے جنگی کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی مہم کے دوران غزہ اور دوسرے علاقوں پر وحشیانہ بمباری کے دوران اب تک تقریباً 33 ہزار فلسطینی شہید اور 75 ہزار شدید زخمی ہوچکے ہیں جن کی اکثریت عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ دس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں ان پر بھی اسرائیلی طیارے وحشیانہ بمباری کررہے ہیں۔ تاہم ان بدترین حالات میں بھی عارضی اور کمزور ہی سہی مگر سلامتی کونسل کی قرارداد ایک اچھا اقدام ہے، پاکستان، عرب ممالک، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، فلسطینی وزارت خارجہ، عالمی ادارہ صحت اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے اور اس پر فوری عملدرآمد کے لئے زور دیا ہے۔ قرارداد کی حمایت کرنے والوں میں چین، روس اور فرانس بھی شامل ہیں۔ الجزائر نے جو قرارداد پیش کرنے والوں میں شامل ہے کا کہنا ہے کہ یہ خون کی ہولی تھی جسے روکنے کے لئے قرارداد منظور کی گئی۔ اس کا مقصد صرف رمضان میں فلسطینیوں کو مزید تباہی اور بربادی سے بچانا ہے تاہم یہ مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ امریکہ نے قرارداد کی حمایت نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ اس میں مزاحمتی تنظیم حماس کی مذمت نہیں کی گئی جبکہ حماس نے قرارداد کو ناقص قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے ساتھ سرائیلی فوج کا مکمل انخلا بھی ہونا چاہیے۔ صرف رمضان میں غزہ کے نہتے اور بربادی کے شکار فلسطینیوں کو اسرائیلی بمباری اور ہلاکت خیزی سے بچاؤ کافی نہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام سے روکنے کا مؤثر ذریعہ نہیں جس کا عراق پر امریکی حملے کے دوران منظور ہونے والی قرارداد میں اہتمام کیا گیا تھا۔ اس قرارداد پر ساری دنیا پر ذمہ داری عائد کی گئی تھی کہ وہ امریکی کارروائیوں کا عملی طور پر ساتھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار غزہ کے معاملے میں منظور ہونے والی قرارداد کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھتے۔ امریکہ کو ایک سپر پاور ہونے کے ناطے حق اور انصاف کا ساتھ دینا چاہیے اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں پورے عالم انسانیت کے امن کے لئے اسرائیل کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت سے روکنا چاہئے کیونکہ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا واحد اور دیر پا حل ہے۔

تازہ ترین