• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیس کی قیمت میں حالیہ اضافے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا اظہار برہمی فطری ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں سوئی کے مقام پر گیس کے ذخائر جب دریافت ہوئے تواس گیس کو ایک سستے ایندھن کے طور پر دیکھا گیا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ذخائر دوسوسال تک کی ملکی ضروریات کے لئے کافی ہونگے۔مگر اس وقت ملک کی آبادی کم تھی اور شاید تخمینے لگانے والوں کو آبادی میں غیر معمولی اضافے کا درست اندازہ نہ تھا ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے گیس کے ذخائر کمیاب ہیں، نئی دریافت ہونے والی گیس کی مقدار کم ہے جبکہ زیادہ انحصار باہر سے گیس کی درآمد پر ہے ۔ پائپ لائن کے ذریعے گیس کی ترسیل کا ایک منصوبہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے التوا کا شکار ہے جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی راہ میں امریکی پابندیاں حائل ہوگئی ہیں۔ کنٹینروں کے ذریعے آنے والی گیس اب پرانے سستے نرخوں پر دستیاب نہیں۔ اس کے لئے خطیر زرمبادلہ درکار ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی شرائط مستزاد ہیں۔ اس منظر نامے میں گیس کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں اور ان میں کئی ماہ کے دوران کئی سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت بھی سوئی ناردرن گیس کی طرف سے نرخوں میں اضافے کی ایک درخواست آئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) میں زیرسماعت ہے۔ اس صورتحال میں وزیرا عظم نے اوگرا اور گیس کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک ماہ میں گیس نرخوں میں حالیہ اضافے کی فرانزک رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ 3ماہ میں گیس انفراسٹرکچر ،گیس کی چوری اور ناقص کارکردگی کی رپورٹ بھی مانگی گئی ہے اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مانیٹرنگ کے لئے فوری طور پر بین الوزارتی کمیشن قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ توقع ہے کہ ان اقدامات سے صورتحال میں بہتری کی راہیں نکلیں گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین