سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے درخواست دائر کر دی گئی۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے۔
آئینی درخواست میں سپریم کورٹ سے بااختیار کمیشن بنا کر انکوائری کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایسے تنازعات کی تحقیقات کا ادارہ نہیں، ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کے مترادف ہے، 6 ججز نے اپنے خط میں بانیٔ پی ٹی آئی کے صرف ایک مقدمے کی مثال پیش کی، بانیٔ پی ٹی آئی کے مقدمے کے سوا ججز نے ایک بھی مقدمے کا واضح حوالہ اور ثبوت نہیں دیا۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف نے ججز کے خط پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے اور بانیٔ پی ٹی آئی کے مقدمات کالعدم قرار دے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان دباؤ سے متعلق حقائق سامنے لائے ہیں، خط لکھنے والے جج صاحبان اور ان کے خاندان کا تحفظ یقینی بنایا جائے، بانیٔ پی ٹی آئی کو تمام سزائیں دباؤ میں دی گئیں، 5 دن میں 3 کیسز میں سزا دلوائی گئی، شواہد پیش کرنے اور صفائی کا موقع تک نہیں دیا گیا۔
عمر ایوب نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط سامنے آنے کے بعد سعد رفیق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔
6 ججز کے خط کا حوالہ دیے بغیر رہنما ن لیگ اور سابق وزیرِ ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ میں اور سلمان رفیق قانون کے مطابق حفاظتی ضمانت کے لیے 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، اس موقع پر 2 معزز جج صاحبان پر مشتمل بینچ نے ضمانت دینے کے بجائے ہمارا تمسخر اڑایا، حکم ضمانت نہ دینے کا تھا، تذلیل اضافی کارروائی تھی، سنا ہے اب ضمیر جاگ گئے ہیں، مبارک ہو۔