• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائے ابھی چار ہفتے مکمل نہیں ہوئے۔ اس مختصر عرصے میں معیشت، خارجہ امور، قومی سلامتی اور سیاسی منظر پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ نئی حکومت کا فوری طور پر 24 ویں مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا یہ تو طے تھا کہ لیکن آئی ایم ایف ذرائع کے مطابق ابھی تو گزشتہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کے اجرا کا جائزہ وسط اپریل میں آئی ایم ایف بورڈ میں ہو گا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ محمد اورنگزیب پرامید ہیں کہ رواں مالی سال کے اختتام تک آئی ایف سے کوئی چھ ارب ڈالر کا نیا بیل آئوٹ پروگرام طے پا جائے گا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ آئندہ معاشی اقدامات میں امیر طبقے کو معیشت کی بحالی کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ ماضی مگر اس کی گواہی نہیں دیتا۔ دکاندار طبقے پر ٹیکس، بجلی اور گیس نیز اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا حجم 340 ارب ڈالر ہے جبکہ رواں ماہ میں بھارت نے صرف چار یورپی ممالک (ناروے، سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ اور لکٹن سٹائن) کے ساتھ 100 ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ لکٹن سٹائن دنیا کا چھٹا سب سے چھوٹا مگر امیر ترین ملک ہے۔ سعودی عرب بھی آئندہ برسوں میں بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ سرمایہ کار کوسیاسی استحکام اور امن و امان کی ضمانت درکار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ہماری صورت حال یہ ہے کہ گوادر سے شانگلہ تک دہشت گرد حملے جاری ہیں۔ پانچ چینی شہریوں کی ہلاکت ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ چینی شہریوں پر حملے کا واضح مقصد پاکستان میں سرمایہ کاری روکنا ہے۔طرہ یہ کہ تحریک انصاف آئی ایم ایف کو پاکستان کی مالی مدد کرنےسےمنع کر رہی ہے ۔

پاکستان کے راندہ درگاہ شہری پچھلے پندرہ برس سے تحریک انصاف اور دہشت گرد طالبان کے موقف میں مطابقت کی نشان دہی کرتے رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں ان سابق سرکاری اہلکاروں کی طلبی کا عندیہ دیا تھا جو پارلیمنٹ یا کابینہ سے منظوری لیے بغیر ہزاروں طالبان کو پاکستان واپس بلانے کے حامی تھے۔ خواجہ آصف کے وضو بھلے ٹھنڈے ہو گئے ہوں لیکن چین اپنے شہریوں کی سلامتی کے بارے میں بہت حساس ہے۔ مبینہ طور پر کچھ ترقیاتی منصوبو ں پر کام رک گیا ہے۔ اس دوران عدلیہ میں ایک نیا قضیہ کھڑا ہوا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر عدالتی کارروائی میں مبینہ مداخلت اور دبائو کا الزام لگایا ہے۔ سپریم کورٹ نے فوری طور پر فل کورٹ اجلاس منعقد کیا اور پھر وزیراعظم اور وزیر قانون سے ملاقات کر کے حکومت کو مطلع کیا کہ عدلیہ کے آئینی ادارے میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ حکومت کابینہ سے منظوری لے کر جلد ہی ایک جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گی۔ بظاہر اس معاملے سے تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔ ایسے سنگین الزامات کے لیے وقت کا انتخاب قابل توجہ ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی صاحب کی آزمائش کو نظیر بنایا جاسکتا تو خط لکھنے والے جج صاحبان اب تک سپریم جوڈیشل کونسل کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست اگست 1991 ء کے سوویت یونین میں کھڑی ہے۔ سابق ہیئت مقتدرہ اور موجودہ ریاستی بندوبست میں خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ 2011 ءسے 2022 ءتک ایک پیج کی حکومت کا جو تجربہ کیا گیا تھا اس نے قوم ہی کو نہیں، ریاست کو بھی ہر سطح پر منقسم کیا ہے۔ معاشی طور پر کمزور، سیاسی طور پر متزلزل اور دہشت گردی کے خطرات سے دوچار پاکستان وجودی بحران کا شکار ہے۔ بظاہرآئینی اداروں میں اعلیٰ ترین سطح پر وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے۔ بڑے دھارے کی سیاسی قوتیں بھی بحران کی نوعیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ عوامل قومی قیادت کے ارادوں سے ماورا ہیں۔ اول یہ کہ رائے عامہ بر ی طرح منقسم ہے۔ عوام کے ایک بڑے حصے کا ریاست کی عمل داری سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ایسی قطبیت قومی سطح پر ہنگامی اقدامات کی متحمل نہیں ہوا کرتی۔ دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آئینی اور ریاستی اداروں میں افقی تقسیم موجود ہے۔ ایک ہائیکورٹ کے ججوں کی طرف سے ایسا متنازع مکتوب صاف بتاتا ہے کہ ’ڈنمارک کی ریاست‘ میں سب ٹھیک نہیں ہے۔‘ تیسرا اور شاید اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ملکی معیشت کی نائومنجدھار میں ہے۔ عالمی صورتحال بذات خود دگرگوں ہے۔ یوکرائن اور فلسطین کی جنگوں سے لے کر امریکی انتخاب تک کسی کو معلوم نہیں کہ آنے والے ایک برس میں اقوام عالم کا باہم توازن کیا رخ اختیار کرے گا۔ اگر ماسکو کے کنسرٹ ہال پر دہشت گرد حملہ واقعی دہشت گرد تنظیم امارت خراسان کی کارستانی ہے تو پاکستان کو بہت احتیاط سے دہشت گردی کے بارے میں دو ٹوک پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ بظاہر افغانستان کی نام نہاد حکومت پاکستان سے تعاون پر آمادہ نظر نہیں آتی اور امریکا سمیت مغربی دنیا بڑی حد تک پاکستان کے معاملات سے بے نیاز ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں اپنے گھر کے حالات کو خود ٹھیک کرنا ہو گا۔ اگست 2017 میں محترم رضاربانی نے کوئٹہ کے ایک اجتماع میں ایک وسیع تر قومی مکالمے کی تجویز دی تھی۔ اب اس قصے پر سات برس گزر چکے۔ اب تو پیپلز پارٹی سینیٹ میں رضاربانی کی رکنیت بھی ضروری نہیں سمجھتی۔ سندھ کے صوبائی وزیر ناصر شاہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری فیصل واوڈا کو اپنا بیٹا قرار دے چکے ہیں۔ انقلابات ہیں زمانے کے.... قومی اسمبلی میں 90 سے زیادہ ارکان اور کم از کم ایک صوبائی حکومت کا ایسے سیاسی گروہ سے تعلق ہے جس کا مقصد موجودہ حکومتی بندوبست کو ناکام کرنا ہے۔ گویا مارگلہ کی پہاڑیوں پر پھر برق فروزاں ہے اور گزرے ہوئے دس برس کی غلطیوں کا مداوا ایسا آسان بھی نہیں۔

تازہ ترین