• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کی مداخلت، ذمہ دار وزیراعظم، ISI ،IB اور IM کس قانون کے تحت بنیں، ہائیکورٹ ججز کی تجاویز پر حکومت سے جواب طلب، سپریم کورٹ

اسلام آباد (رپورٹ: رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں حکومتی اور خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کولکھے گئے خط سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ 

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس ادارے مداخلت کرتے ہیں تو اسکے ذمہ دار وزیر اعظم اور انکی کابینہ ہے، مداخلت کلچر ختم ہونا چاہئے، جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا آئندہ سماعت پر عدالت کو بتایا جائے کہ آئی ایس آئی ،ایم آئی اور آئی بی کس قانون کے تحت بنائے گئے ہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عدلیہ کی آزادی یقینی بنائینگے، میں نے لکھ کر دیا کہ دھرنے کے پیچھے جنرل فیض تھا، حکومت قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہی، ہم کنڈکٹ سے دکھائینگے کہ مداخلت ہے یا نہیں،مداخلت اندرونی، بیرونی بھی ہوسکتی ہے، اپنے کام میں دخل اندازی نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے

 عدلیہ کو طے کر لینا چاہئے کہ کسی سیاسی طاقت، حکومت یا ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر کوئی جج جرات دکھائے تو اس کیخلاف ریفرنس آجاتا ہے، مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا لوگ مداخلت کرتے ہیں کہیں کامیاب ہوتے ہیں کہیں کامیاب نہیں ہوتے یہ ایک جج پر منحصر ہے، دوران سماعت ملک بھر کی پانچوں ہائی کورٹس نے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور ایسی ناپسندیدہ صورتحال کے تدارک کیلئے اپنی اپنی تجاویز جمع کروادی ہیں، ان تجاویز کا کھلی عدالت میںجائزہ لینے کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وفاقی حکومت سے الزامات پر جواب اور اسکے سدباب کیلئے تجاویزطلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 7مئی تک ملتوی کردی ہے۔ 

چیف جسٹس، قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل چھ رکنی لارجر بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی ۔ 

عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کوئی خفیہ ادارہ بھی اس ضمن میں اپنا موقف یا جواب دینا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب جمع کراسکتا ہے، عدالت نے واضح الفاظ میں قرار دیا ہے کہ وکلاء کی منتخب باڈی (پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ) کے علاوہ اس مقدمہ میں کسی وکلاء تنظیم کو انفرادی طور پر فریق نہیں بنایا جائیگا، اسلئے مناسب ہوگا کہ فریق بننے کیلئے درخواستیں دائر کرنے والے تمام درخواست گزار پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے ساتھ مشترکہ تجاویزاور سفارشات جمع کرائیں، لیکن اگر اتفاق رائے ممکن نہ ہو تووہ 6مئی تک الگ سے بھی تجاویز اور سفارشات جمع کراسکتے ہیں لیکن انہیں فریق مقدمہ نہیں بنایا جائیگا۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی ہے کہ وکلا ء تنظیموں میں سیاسی تقسیم ضرور ہوتی ہے، لیکن عدلیہ کی آزادی مشترکہ ہدف اور مقصد ہونا چاہیے،ہم اچھی تجاویز کو خوش آمدید کہیں گے

 جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کے سامنے سوالات رکھتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتایا جائے کہ تینوں خفیہ ادارے آئی ایس آئی ،ایم آئی اور آئی بی کس قانون کے تحت بنائے گئے ہیں؟،ان کاکام کیا ہے ،اور اگرکسی خفیہ ادارے کا کوئی اہلکار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کیخلاف کارروائی کا کیا طریقہ کار اور قانون ہے؟جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ اگر کسی خفیہ ادارے کا کوئی اہلکار اختیار ات سے تجاوز کرے تو یہ اس کا ذاتی فعل تصور کیا جائیگا یا ادارہ جاتی فعل تصور ہوگا ؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس معاملہ میں واحد ایشو یہ ہے کہ کس طرح عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے؟ تاکہ انتظامیہ اور خفیہ ادارے عدلیہ کو دھمکا نہ سکیں اور مداخلت کے کلچر کا خاتمہ ہو سکے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کو طے کرلینا چاہئے کہ ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا حساس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے۔ انہوںنے پوچھا کون سی چیزیں ہیں جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ہیں؟ تمام ہائیکورٹوںسے تجاویز مانگی تھیں ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا ہے ،اوراس حوالے سے اپنا ایک علیحدہ نوٹ بھی جاری کیا ہے، ہر جج کا نقطہ نظر ہی اہم ہے،انہوںنے کہاکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے کیس کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھا جائے۔ انہوںنے مزید کہا کہ شاید لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطہ نظرکے پرچار میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، اگرکوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے اور مداخلت اندر سے بھی ہوسکتی ہے باہر سے بھی، مداخلت انٹیلی جنس اداروں، آپکے ساتھیوں، فیملی کی طرف سے، سوشل میڈیا کی طرف سے اورکسی بھی طرف سے ہوسکتی ہے،ہم اپنے کنڈکٹ سے دکھائینگے کہ مداخلت ہے یا نہیں، جج کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتاہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے اور کتنی آزادی ہے اور کتنی نہیں ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ ہم نے مداخلت کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیاہے،انہوںنے اس حوالہ سے قانون سازی کی تجویز پیش کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ اور ہر ادارے میں موجود ہوتے ہیں؟دباؤ ہر جگہ پر ہی ہوتا ہے؟بیورکریسی پر بھی دباؤ آتا ہے ،لیکن کوئی دباؤ لیتا ہے؟ کوئی نہیں لیتا ؟اگر میرے کام میںکوئی مداخلت ہو اور میں اسے نہ روک سکوں؟ تو مجھے اپنے گھرچلے جانا چاہیے، انہوںنے کہا کہ ملک میں سیاسی تقسیم بہت زیادہ ہے، ہمیں ایک جانب یا دوسری طرف کھینچنا بھی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، عدلیہ میں ایک اور مداخلت وکلا ء اوربار ایسوسی ایشنوںکے صدور کی ججوں کے چیمبرزمیں جانا ہے ، عدلیہ میں اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے، کیا چیف جسٹس کسی جج کو بلا کر کہہ سکتا ہے کہ ایسا فیصلہ کرو ؟انہوںنے کہاکہ ہمیں عدلیہ کے اندر بھی احتساب کی بات کرنی چاہیے،مداخلت کسی بھی قسم کی ہو؟اسکا تدارک ہونا چاہیے، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، میں نے بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن کہا تھا کہ میں عدالتی معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کروں گا؟ میں نے جب سے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ہے اس دن سے لیکر آج تک عدلیہ میں مداخلت کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ہے ، اس معاملہ میں سیاست نہیں ہونی چاہیے کہ فلاں وقت تک آنکھیں بند رکھیں اور فلاں وقت تک آنکھیں کھول دیں؟ یہ تو Selective احتساب ہوا، انہوں نے کہا کہ جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے اور جے آئی ٹی بناتے ہیں تو ہم عدلیہ کی آزادی کوکم کرتے ہیں، سلیکٹیوو احتساب بدترین احتساب ہوتا ہے، ماضی میں جو ہوا سو ہوا؟ اب سچ بولیں، اگر ہمیں صرف الزام لگانے ہیں تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے نئی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے خفیہ ادارے وزیر اعظم کے ماتحت ہیں اور وزیر اعظم ہی ان کے ہر کام کا ذمہ دارتصور کیا جاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آج ساری الجھنیں ختم کرنے اور عدلیہ کے گرد حفاظتی دیوار کھڑی کرنے کا سنہرا موقع ہے ،دوران سماعت عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے معاملہ پرفاضل ججوں کی رائے میں اختلاف بھی نظر آیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا76 سالو ں سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایسا ہوتا رہاہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں نہ ایسی تھیوری سے اتفاق کرتا ہوں نہ ہی یہاں ایسا کلچر ہے ، میں بلوچستان میں پانچ سال سے زائد عرصہ تک چیف جسٹس رہا ہوں،سب سے زیادہ خطرہ سپریم کورٹ سے تھا،مجھے 76سالہ عدالتی تاریخ والی بات کے تناظر میں نہ لیا جائے، اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اسے غلط کہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا میں بھی چار سال تک اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں،اس دوران کسی بھی ادارے کی جانب سے کسی قسم کو کوئی مداخلت نہیں ہوئی ہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ریمارکس دیئے کہ میں بھی لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹسرہا ہوں لیکن آج تک کسی نے میرے عدالتی امور میں بھی مداخلت نہیں کی ہے ،جس پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عدلیہ میں مداخلت ایک جج کی ذات پر منحصر ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتے انھیں جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے،سپریم کورٹ میں پیش کی گئی تجاویز میں ہائی کورٹوں جن جن اقدامات کی سفارشات کی ہیں ؟وہ سب کچھ خود کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کیلئے کیوں کہا جا رہا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی جج ایسی جرات دکھا دے، تواس کیخلاف ریفرنس آجاتا ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جج کے خلاف وہ ریفرنس کون سا کسی خفیہ ادارے کے پاس آتا ہے؟اس کا جائزہ بھی تو ہم نے ہی لینا ہوتا ہے، اگر کمزور یا بدنیتی پر مبنی ہو تو اٹھا کے پھینک کیوں نہیں دیتے ،انہوںنے کہا کہ ہم نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا فیصلہ بھی تو جاری کیا ہے

 انہوں نے کہا کہ مکران کا سول جج بھی اتنا ہی طاقتور ہے؟جتنا چیف جسٹس پاکستان ہے، انہوں نے کہا کہ مخصوص نتائج کے حصول کیلئے یہاں پر مخصوص اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں، کچھ مقدمات میں بدترین احتساب کی مثالیں موجود ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کے بہت سے طریقے ہیں ، جو دروازہ کھولے گا وہ مس کنڈکٹ میں جائے گا، لیکن جو دباؤ کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا ؟اس کے لیے کوئی میکنزم (طریقہ کار) تشکیل دینا ہوگا، انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججوں نے کہا ہے کہ عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں اور حکومتی اداروں سمیت وکلاء کی مداخلت ایک کھلا راز ہے، اب وہ جج سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہے ہیں

 چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس بننے کے بعد مداخلت کے حوالہ سے مجھے یا میرے رجسٹرارآفس میں ایک بھی شکایت نہیں آئی ہے،انہوںنے کہاکہ ہم ماضی کی شکایات کاجائزہ لے رہے ہیں، ہمیں اب آگے بڑھنا ہے، ہم کسی سیاسی قوت یا کسی مخصوص ادارہ کے لئے ہیر پھیر نہیں کرنے دیں گے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سارا مقدمہ ہی عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، عدالتی امور میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اندرونی یا بیرونی طور ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہائیکورٹس کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے لیکن انھوں نے اسے استعمال ہی نہیں کیا ہے، انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس، بے نظیر بھٹو کیس، اور فیض آباد دھرنا کیس کی مثالیں موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کیسا کلچر ہے کہ خفیہ ادارے کی ریکارڈنگ کے خوف سےʼʼ ایک کمرے میں نہ بیٹھو؟ ادھر بیٹھو؟ کوئی س

ن لے گا؟ یہاں کوئی بات نہ کرو؟ کوئی سن لے گا؟ بڑا بھائی سب دیکھ رہا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ سب کچھ پچھلے 76سالوں سے ہو رہا ہے، یہ ہماری اندرونی کمزوری ہو سکتی ہے، جج ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے میں خوف کا شکار رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید