بے شمار مسائل کا سامنا ہو تو انسان بے حوصلہ اور مایوس ہو جاتا ہے۔ لیکن جب جھلسی ہوئی زمین پر بارش کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو عزم نیا حوصلہ پاتا ہے۔ امید کا دامن تھامتے ہوئے جدوجہد کے اگلے مرحلے میں قدم رکھتے ہیں۔ منزل قریب آتی دکھائی دیتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ فاضل ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ’’ایگزیکٹو کے ممبران، بشمول انٹیلی جنس ایجنسیوں، جو ان کے فرائض کی انجام دہی میں مداخلت کرتی ہیں، جسے دھمکانا کہا جا سکتا ہے، کے بارے میں مطلع کرنے اور اس بابت ہدایت لینے، نیز عدالتوں، جن کی نگرانی ہائی کورٹس کرتی ہیں، سے تعلق رکھنے والے دیگر ساتھی ججوں کو درپیش ایسے ہی مسائل‘‘ سے متعلق خط لکھا ہے جو کسی بھونچال سے کم نہیں۔ اس سے پھوٹنے والا لاوا ملک کے اس چہرے کو بدل سکتا ہے جس پر عشروں سے خوف کی دبیز پرچھائیاں سایہ فگن ہیں۔ طویل عرصے سے گل ہونے والی امیدکی شمع دوبارہ روشن ہو سکتی ہے۔خط، جس میں ایسی مداخلت کی بہت سی مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے، کے آخر میں استدعا کی گئی ہے کہ ’’انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی فعالیت میں مداخلت اور ججوں کو ڈرانے دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن بلایا جائے کیونکہ یہ چیز عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘ خط مزید کہتا ہے کہ ’’ایسی ادارہ جاتی مشاورت سپریم کورٹ کیلئے اس بات پر غور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کی بہترین طریقے سے حفاظت کیسے کی جائے، ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں ایسے عناصر کو ذمہ دار ٹھہرانے کی سکت ہو جو عدلیہ کی آزادی میں نقب لگاتے ہیں اور ایسے انفرادی ججوں کو راہ دکھائی جائے جو وہ ایگزیکٹو یا ایجنسیوں کے ممبران کی طرف سے مداخلت یا دھمکیوں کا نشانہ بننے پر اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ ابلاغ نہ صرف بہت جرات مند قدم ہے بلکہ اس کے اہداف بھی قابل تعریف ہیں جو ’’ادارہ جاتی مشاورت‘‘ کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر جلد از جلد کارروائی کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس دوران یہ بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ایسی مشاورت ان قوتوں کی ہر قسم کی دھونس دھمکی سے محفوظ ہو جس کا خط میں حوالہ دیا گیا ہے اور جو اس تجویز کی اصل وجہ ہے۔ ہم جانتے ہیںکہ ہمارے ملک میں ایگزیکٹو ایسے معاملات پر بھی اثر انداز ہوتا رہتا ہے جو اس کے براہ راست دائرہ عمل سے باہر ہوتے ہیں۔ اس کیلئے وہ ایسے اختیارات استعمال کرتا ہے جواس کے عہدے کو کسی اور مقصد کیلئے حاصل ہوتے ہیں۔ ایسے اختیارات میں جبر اور ڈرانے دھمکانے کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ عدلیہ سمیت دیگر اداروں پر بلاروک ٹوک تسلط جمائے رکھنے کی وجہ سے یہ کم و بیش ناممکن ہے کہ وہ اس تباہ کن عادت سے دست بردار ہوں۔ اس چیز نے ملک میں گورننس کے معیار کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارروائی اس نظام کا بنیادی حصہ ہے جس کے ذریعے فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔
جیسا کہ منسلک دو ضمیموں سے ظاہر ہوتا ہے، یہ خط چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی فرد جرم ہے کیونکہ انھیں اکثر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے طرز عمل اور کچھ ججوں پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ویڈیو کیمرے لگا کر ان کی پرائیویسی کو نقصان پہنچانے اور انکی رہائش گاہوں کی فوٹیج کو نامعلوم مقامات تک پہنچانے کے بارے میں بھی آگاہ رکھا جاتا تھا۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس معاملے میں کارروائی نہ کرنا اس جرم سے اغماض کے مترادف ہے۔ اسی لیے سپریم جوڈیشل کونسل سے جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط کا پیرا 6 تفصیلی تجزیے کے لائق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس بات کی انکوائری کرنا اور اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ آیا ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہے جو انٹیلی جنس اہل کاروں کے ذریعہ نافذ کی جاتی ہے جو ایگزیکٹو برانچ کو رپورٹ کرتے ہیں، اور جس کا مقصد سیاسی اہمیت کے معاملات میں عدالتی فیصلے لینے کیلئے ججوں کو جبر یا بلیک میل کرتے ہوئے خوفزدہ رکھناہے۔‘‘
اس میں زیادہ تر چیئرمین عمران خان کے کیسز سے متعلق مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن میں رٹ پٹیشن نمبر 3061 آف 2022 شامل ہے۔ یہ معاملہ کیس کے قابل سماعت ہونے کے متعلق ہے۔ پریزائیڈنگ جج (چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیا تھا جبکہ دیگر دو ججوں نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مختلف رائے لکھی تھی۔ اختلاف کرنے والے ججوں پر ایک خفیہ ایجنسی کے اہل کاروں کے مبینہ دباؤ کی وجہ سے انھیں اپنے گھروں کی اضافی حفاظت کا مطالبہ کرنا پڑا۔ ایک اور مثال میں ایک جج کے برادر نسبتی کو انٹیلی جنس اہلکاروں نے اغوا کر لیا۔ قید کے دوران اسے بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور ایک ویڈیو ریکارڈ کرنے پر بھی مجبور کیا گیا اور جھوٹے الزامات لگانے کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جبکہ یہ معاملات باضابطہ طور پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے نوٹس میں لائے گئے، انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت بلا روک ٹوک جاری رہی۔یہ اور اسی طرح کے دیگر معاملات عوام کو معلوم ہیں، لیکن تاثر عام ہے کہ ان مذموم حرکتوں کے مرتکب قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ زیر لب شکوہ شکایت کے علاوہ انھیں کبھی جواب دہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ وہ اپنی خاص حیثیت سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ان کی غلط کاریوں کی تعداد اور سنگینی بڑھتی گئی۔ اس نے ریاست کو کمزور کر دیا کیونکہ بلا امتیاز انصاف جو شہریوں کا حق ہے، کی جگہ ان طاقتور حلقوں کا استحقاق ہی واحد اصول بن چکا ہے۔یہ خط جھلسی ہوئی بنجر زمین پر بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے، جسے دیکھ بھال کرنے اور زرخیز بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اس پیغام کو اصل روح کے مطابق دیکھا جائے اور قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے اس پر سنجیدہ اقدامات یقینی بنائے جائیں تاکہ اداروں میں مداخلت کی بیماری کا علاج ہو سکے، اور ہم سر پر لٹکنے والی تلوار سے بے خوف ہو کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکیں۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکر ٹری انفارمیشن ہیں)