• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میری والدہ، سلمہ شفیق اپنی پانچ بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں اور اُن کے ایک ہی بھائی تھے۔ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ گھر میں دو چھوٹی بہنوں کو پڑھانے لکھانے کے علاوہ محلّے کے بچّوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں۔ 1962ء میں عم زاد سے شادی کے بعد لاہور سے رخصت ہوکر کراچی منتقل ہوگئیں۔ سسرال میں وہ گھر کی سب سے بڑ بہو تھیں۔ اُن کے تین دیور اور چار نندیں تھیں، جن کے ساتھ ہمیشہ پیار و محبت کا برتاؤ رکھا۔ میری والدہ گھرداری کے تمام امور میں اپنی ساس یعنی میری دادی کا بھرپور ساتھ دیتیں۔ سارا دن اُن کے ساتھ مل کر گھر کا سب کام کاج کرتیں۔ سلائی، کڑھائی کا بھی شوق تھا، تو گھر کے تمام افراد کے کپڑے بھی سیتیں۔

شادی کے ایک سال بعد میری بڑی بہن پیدا ہوئی اور اس کے ڈیڑھ سال بعد مَیں اور میرے پانچ سال بعد میری ایک اور بہن پیدا ہوئی، جس کے بعد مختلف آزمائشوں نے ہمیں آگھیرا۔ بڑی بہن کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ اسی دوران والد صاحب کی نوکری بھی ختم ہوگئی، تو مالی مسائل میں بھی گھر گئے، لیکن میری والدہ نے ہمیشہ ہمّت دلائی اور والد صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔ کچھ عرصے بعد والد صاحب کو ایک مشہور آٹو موبائل کمپنی میں اکائونٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ 

والد صاحب بے روزگاری کے دنوں میں بہن کو اسپتال خود لے کر جاتے تھے، لیکن جب ملازمت پر جانے لگے، تو یہ ذمّے داری میری والدہ اور دادی نے سنبھال لی۔ اُس زمانے میں ہمارے گھر سے بس اسٹاپ بہت دُور تھا، لیکن والدہ اور دادی، بہن کو ہر ہفتے باقاعدگی سے اسپتال لے کر جاتی رہیں اور تین سال تک پابندی سے اس کا علاج کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے بالآخر اسے شِفا دی اور وہ ٹھیک ہوگئی۔

میری ایک چھوٹی بہن کا11ماہ کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ اُس کے بعد ایک اور بہن تھی، جو ذہنی و جسمانی معذور تھی، اُس کا2007ء میں انتقال ہوا۔ سب سے چھوٹا میرا ایک بھائی تھا، جس کی دماغ کی نشوونما گردن توڑ بخار کی وجہ سے رک گئی تھی۔ بہرکیف، میری والدہ نے ان سب آزمائشوں کا بڑی ہمّت و بہادری سے مقابلہ کیا، کسی سے کوئی گِلہ شکوہ نہ کرتی تھیں۔ ہر حال میں خوش رہنا جانتی تھیں۔ گھومنے پھرنے کی بہت شوقین تھیں، تو والد صاحب کے ساتھ ہر سال چھٹیوں میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات ضرورجاتیں۔

والدہ، 1984ء میں میری بڑی بہن،1987ء میں چھوٹی بہن اور1993ء میں میری شادی کے فرائض سے سبک دوش ہوئیں اور ماشاء اللہ 1988ء میں انہوں نے پہلا اور1997ء میں دوسرا حج کیا۔ وہ اپنے نواسے، نواسیوں، پوتے، پوتیوں سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ آخری وقت تک خوب چاق چوبند رہیں، انتقال سے کچھ ماہ پہلے بیمار ہوئیں، علاج معالجہ جاری تھا کہ اسی دوران برین ہیمرج ہوا اور دو دن اسپتال میں رہنے کے بعد 2015ء کی شب اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اوردرجات بہت بلند کرے، آمین۔ (ریحان رضا احمد شیخ، کراچی)