• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دِل سے دِل، ہاتھ سے تُو ہاتھ مِلا، عید کے دن ...

تحریر: نرجس ملک

مہمان: دعا فیروز بٹ، ہُما عروج، مبشر خان، عنایا نبیل، ہادی نبیل

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو، ڈی ایچ اے، لاہور

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

لے آؤٹ: نوید رشید

عکاسی: عرفان نجمی

ہائے! اِک ’’سچّی خوشی‘‘ کی تلاش میں انسان کہاں کہاں نہیں مارا مارا پِھرتا، کیا کیا نہیں پاپڑ بیلتا، کیسے کیسے نہیں سوانگ رچاتا، کن کن غموں کو نہیں جھیل جاتا۔ دراصل انسان کی خوش باش، پُرامن و پُرسکون، شانت و مطمئن رہنے کی خواہش سو فی صد فطری ہے۔ وہ تکلیفوں، پریشانیوں، دُکھوں، غموں کو بہ امر مجبوری جھیل تو لیتا ہے، لیکن جھیلنا چاہتا نہیں، عُمر بھر کی بھاگ دوڑ، تگ ودو اِک آرام دہ، پُرمسرت، شاداں و فرحاں زندگی کے حصول ہی کے لیے تو ہے۔ 

جنّت کی تمنّا، آرزو، آس و اُمید نہ ہوتی، تو بھلا اس حیاتی کے جہنم میں جلا جاسکتا تھا کہ اِک معاوضے، مشاہرے، اُجرت، مزدوری، محنتانے، اجر و ثواب کی توقع ہی تو کسی بھی ’’کارِ محال‘‘ کی انجام دہی پر آمادہ رکھتی ہے۔ اور...... اُمّتِ مسلمہ کو خبر، نوید ہو کہ اُس کے ’’اجر و مغفرت کے اعلانِ عام‘‘ کا دن، بس سرہانے ہی آکھڑا ہوا ہے۔ احادیثِ مبارکہؐ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت و برتری بیان فرمائی گئی ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عیدالفطر کی رات کو آسمانوں پر’’لیلۃ الجائزہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اورجب صبحِ عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پُکارتے ہیں کہ ’’اے اُمّتِ محمدؐ! اُس ربِّ کریم کی بارگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔‘‘اور جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو پھر اللہ رب العزّت فرشتوں سے فرماتا ہے ’’اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو؟‘‘ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ’’اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری، اُجرت پوری پوری عطاکردی جائے۔‘‘ تو اللہ فرماتا ہے ’’اے فرشتو! مَیں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کی عبادات و مناجات کے عوض اپنی رضا ومغفرت عطا کی۔‘‘ اور پھر بندوں سے مخاطب ہوتا ہے ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میرے عزّو جلال کی قسم، آج کے دن، آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ 

میری عزت و عظمت کی قسم! مَیں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے ہرگز رُسوا نہ ہونےدوں گا۔ بس اب بخشےبخشائےاپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور مَیں تم سےراضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترہیب) الحمدُللہ، ثم الحمدُللہ، صرف ایک ماہ کی عبادت و ریاضت (ٹوٹی پھوٹی عبادتوں، سوتی جاگتی ریاضتوں) کا ایک ایسا شان دار محنتانہ، اِک اُمّتِ مسلمہ ہی کا مقدّر، خاصّہ ہے۔

جس ’’خوشی‘‘ کی تلاش میں لوگ سمندروں کی تہوں میں اُتر جاتے ہیں، پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ کبھی جنگل بیلے جا نکلتے ہیں، تو کبھی انسانوں کے ہجوم میں گم ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے دین نے تو اُس ’’خوشی‘‘ کےحصول کے لیے باقاعدہ دو ایّام، تہوار ہی مقرر کردیے ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ جب مکّے سے ہجرت فرما کر مدینہ منوّرہ تشریف لائے تواہلِ مدینہ (جن کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہو چُکی تھی) جشن و مسرت کے دواجتماعی تہوار منایا کرتےتھے۔ رسولِ اکرمؐ نے اُن سے دریافت کیا ’’یہ جو دو دن تم مناتے ہو، اِن کی حقیقت (پس منظر) کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ’’ہم دورِ جاہلیت میں (قبل از اسلام) یہ تہوار منایا کرتے تھے، وہی رواج اب تک چلا آرہا ہے۔‘‘ 

رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے، اِن سے دو بہتردن تمہارے لیے مقرر فرما دیے ہیں (لہٰذا اب وہی تمہارے مذہبی و ملّی تہوار ہیں) یومِ عیدالفطر اور یومِ عیدالاضحیٰ۔‘‘(سنن ابی دائود) تو، جس قلبی و ذہنی، روحانی و اجتماعی خوشی کو ہم بھانت بھانت کے میلوں ٹھیلوں، اوٹ پٹانگ کھیل تماشوں، سوشل میڈیا کے سرکس میں تلاشنے لگے ہوئے ہیں، وہ تو ہمیں ہماری ’’تھوڑی محنت‘‘ کے لامحدود اجر و ثواب کی صورت رب تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام و اکرام عطا کردی گئی ہے۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہم اِس کے حقیقی معنی و مفہوم سے نا آشنا ہیں۔ ہم نے دراصل خوش ہونے کا مطلب ہی بدل دیا ہے۔ 

جوخوشی کبھی میل ملاپ، غم، دُکھ بانٹنے، کسی کی آنکھ کی نمی کو چمک میں بدلنے، سوکھے خُشک لبوں پر مسکان بکھیرنے، ٹوٹے کوجوڑنے، رُوٹھے کو منانے، روتے کو ہنسانے، بچھڑے کو گلے لگانے سے حاصل ہوتی تھی، آج اُس کا اظہاربس کسی ایموجی سے ری ایکٹ کرنے ہی تک محدود رہ گیا ہے۔ یہ فیس بُکی، واٹس ایپی، انسٹا، ایکس خوشیاں بھی بھلا کوئی خوشیاں ہیں۔ سب جعلی، مصنوعی، ڈھونگی، بناوٹی، فریبی خوشیاں۔ وہ ہماری پیاری سی شاعرہ ڈاکٹر شاہدہ حسن کے اشعار ہیں ناں ؎ صُبح سے سجنے سنورنے میں کٹا کرتا تھا...... زندگانی میں عجب رنگ بَھرا کرتا تھا...... سرگراں آج نہ جانے یہ گزرتا ہے کیوں...... عید کا دن تو گلے مجھ سے ملا کرتا تھا۔ تو آج عید کا دن ہم سے اِسی لیے گلے نہیں ملتا کہ ہم نے اُس سے اُس کا اصل حُسن و دل کشی، اُس کا خالص پَن جوچھین لیا ہے۔ 

بہرکیف، ہماری تو ہمیشہ ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ جس حد تک بھی ممکن ہو، اپنی اسلامی و مشرقی تہذیب و روایات، رسوم و رواج، اپنےاصل،اپنی رُوٹس سے کسی نہ کسی طرح جُڑے ہی رہیں۔ اِسی لیے ہربرس ’’بزمِ عید‘‘ کی صُورت کچھ ایسا ہی اہتمام کرنےکی کوشش کرتے ہیں کہ جو روایتی عید ہی کے طور اطوار، رَنگ ڈھنگ سے مزیّن و مرصّع ہو۔

وہ عنبریں حسیب عنبر کے ’’عید پر......‘‘ کے عنوان سے کیا خوب صُورت اشعار ہیں ؎ ہیں دھنک رنگ سی لڑکیاں عید پر...... جیسے اُڑتی ہوئی تتلیاں عید پر...... رنگ، خُوشیوں، اُمنگوں سے آراستہ...... ہیں منوّر سبھی بستیاں عید پر...... اُس نے بھیجے ہیں چاہت میں لپٹے ہوئے...... پُھول، خُوشبو، حنا، چوڑیاں عید پر...... باہمی رنجشیں بُھول کر آملو...... توڑ ڈالو سبھی بیڑیاں عید پر...... کاش! آجائے وہ، جس کے ہیں منتظر...... میرا دِل، بام و دَر، کھڑکیاں عید پر۔ اور پھر پرویز ساحر کا کلام ہے کہ ؎ کیا خبر، کل تجھے کس بات پر رونا پڑ جائے...... خُوب جی بھر کے تُو خوش ہولے دِلا! عید کے دن...... جانے کیا سوچ کے سینے سے لگایا اُس کو...... برسرِ راہ گزر جو بھی مِلا، عید کے دن...... ایسے مِلنے کو کبھی مِلنا نہیں کہتے ہیں...... دِل سے دِل، ہاتھ سے تُو ہاتھ مِلا، عید کے دن...... آج اُس نے بھی کہا ’’عید مبارک‘‘ ساحر...... میری چاہت کا مِلا، مجھ کو صلہ عید کے دن۔ تو بس، کچھ ایسے ہی دل کش و خُوب صُورت اشتعار کے کنج میں اس بار ذرا کوشش کر کے اپنی خالص و روایتی، سادہ و سُتھری، اُجلی و سجیلی سی عید منانے کی ایک سعی تو کردیکھیں۔ یہ چھوٹا سا ٹائم بم (موبائل فون) اگر محض تین روز کے لیے آف یا سائلنٹ بھی ہو جائے گا، تو ہرگز کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ 

ارادہ تو باندھیں، عید کو عید کرنے کا، پھر یہ عید، اگلی عید تک کے لیے ’’سرمایۂ حیات‘‘ نہ ہوگئی، تو کہیے گا۔ ڈاکٹر حنا امبرین کا شعر ہے ؎ اِس جہاں میں دُکھ ذرا سا کم ہوا، تو عید ہے...... تیرگی کی راہ میں ہو اِک دیا، تو عید ہے۔ اور ہماری یہ میٹھی عید کےسب ہی شیریں و شگفتہ لمحات سے آراستہ چھوٹی سی ’’بزمِ عید‘‘ بھی اِک دیے ہی کے مثل ہے۔ سو، اس تحفۂ عید اور اس دُعا کے ساتھ کہ ؎ ’’یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو...... کیا خُوب ہو، ہر روز تیری عید اگرہو‘‘ آپ سب کو ہماری طرف سے عیدالفطر کی پیشگی مبارک باد قبول ہو۔