سعادت حسن منٹو نے کہا تھا ’’قیمت کوئی بھی ہو ،آدمی اگر بک جائے تو ٹکے کا نہیں رہتا‘‘۔آج کےکالم کا آغاز کرتا ہوں ۔ان ججوں سے جو بکے نہیں ، جو جھکے نہیں ۔جنہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک کھلا خط لکھ دیا۔ اس خط کے بعدخطرناک خطوط کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
لفافہ کھولا گیا تو پاؤڈر سے بھراہوادھمکی آمیز خط باہر نکل آیا۔لفافہ کھولنے والے کی آنکھوں میں فوری طور پر جلن شروع ہو گئی۔خط پڑھا تو اس میں خطرے کا نشان اور اینتھریکس کا لفظ بھی تحریر کیا گیا تھا۔سواس نے سینیٹائزر کا استعمال کیا ،منہ ہاتھ دھویا۔ذہن کے کسی گوشے سے یہ بات فوراً باہر آئی کہ اینتھریکس بڑے پیمانے پر تباہی والاحیاتیاتی ہتھیارہوتاہے۔جسےماضی میںدہشت گردی کیلئےاستعمال کیا گیا ۔امریکہ میں 2001 میں سیاست دانوں اور میڈیا دفاتر کو ایسے ہی دھمکی آمیز خطوط میں اینتھریکس ملنے کے بعد کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔اس کا دل بیٹھ گیا اسے لگا کہ کسی وقت بھی میری موت واقع ہو سکتی ہے۔بہر حال ہسپتال پہنچ کر تمام تر ٹیسٹوں کے نتائج آنے کے بعد اس کے کچھ اضطراب میں کمی واقع ہوئی اور اس نے سوچا کہ چلو میری وجہ سے باقی تمام لوگ تو بچ گئے ۔اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس کے ججز ،سپریم کورٹ کے ججز اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین سب محفوظ ہو گئے ۔ویسے ابھی یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ وہ پائوڈر واقعی اینتھریکس ہے یا کوئی اور کیمیکل ۔ اینتھریکس کی علامات میں بخار، سینے میں تکلیف، سانس لینے میں مشکل، کھانسی، پیٹ میں درد، الٹیاں، سر درد اور زیادہ پسینہ آنا شامل ہیں اور ابھی تک اللہ کے فضل کرم سےاس شخص میں یہ علامات نہیں ہیں ۔ان خطوط پرلگی ہوئی اسٹیمپ کے مطابق یہ لیٹرز کسی لیٹر باکس سے راولپنڈی جی پی او آئے اور پھر وہاں سے ہائی کورٹ ڈلیور ہوئے۔پولیس ارد گرد کے لیٹر باکسز کے پاس لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا چیک کررہی ہے مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔پاکستانی عدالتی امور اور سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والوں نے ان خطوط کے اعلیٰ عدلیہ کے ججز تک پہنچنے پر سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔بہر کیف یہ بات واضح ہے کہ ان خطوط نے عدلیہ پر دبائوکو کچھ اور بڑھا دیا ہے ۔ججز کے خط کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مشا ورت کی اور اس کے بعد وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا مگرجسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی سے انکار کردیاکہ یہ سابق چیف جسٹس کا نہیں حالیہ چیف جسٹس کا کام ہے ۔پھر اس کے بعد ازخود نوٹس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا ۔پہلی سماعت بدھ کی صبح ہوئی۔
خطوط لکھنے والوں نے تین نام استعمال کیے ہیں ، ریشم خاتون زوجہ وقار حسین ، موہد فاصل اور گلشاد خاتون ۔یہ تینوں نام رکھنے والے فرد کا تعلق تحریک ِ ناموس پاکستان سے ہے ۔یہ تینوں نام ایک فرد کی تخلیق لگتے ہیں ۔تینوں ناموں میں کوئی تہذیبی بُعد موجود نہیں ۔ خاتون کانام لکھتے ہوئے اس کے ساتھ خاتون کا لفظ اورشوہر کے نام کو لکھنا ضروری سمجھا گیا ۔یعنی وہ کوئی ماڈرن علوم جاننے والی خاتون نہیں ہو سکتی ۔ایسی خاتون جسے اینتھریکس کے متعلق تمام تفصیل معلوم ہے ۔ وہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی ہسٹری بھی جانتی ہے کہ اینتھریکس کو کسی کی جان لینے کےلئے کیسے استعمال کیا جاتا ہے ۔پھر کسی خط میں ریشم لکھا ہوا ہے اور کسی میں ریشمہ جو کوئی لفظ نہیں ہے۔یعنی نام اور کام میں کافی فاصلہ ہے۔اس تنظیم کا پہلی بار نام گزشتہ برس ستمبر میں سنائی دیا تھا۔اس وقت بھی یہ تنظیم ججوں کو خوفزدہ کرتی ہوئی دکھائی دی تھی۔ججز کالونی کے قریب ایک تھیلے میں تین دستی بم، ایک پستول ، 50گولیاں،اسلام آبادکی اہم عمارتوں کے نقشےاور ایک خط برآمد ہوا تھا جس میں اس تنظیم کی طرف سے سپریم کورٹ کے ججوں اور پاکستانی فوج کے افسران کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔اس کے باوجود ابھی تک اس تنظیم کو پاکستان میں کالعدم قرار نہیں دیا گیا ۔میرا خیال ہے ہماری ایجنسیوں کے پاس اس تنظیم کے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں ۔
لاہور ہائی کورٹ کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ میں یہ خطوط جسٹس شجاعت علی، جسٹس شاہد بلال، جسٹس عزیز شیخ اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام آئے ۔خط ایک نجی کوریئر کمپنی نے ججز کے اسٹاف کو ریسیو کروائے ۔پولیس ڈیلور کرنے والے شخص کو گرفتار کرچکی ہے۔اس کے کچھ دیر بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کو بھی دھمکی آمیز خط موصول ہوا، جس میں پاؤڈر اور دھمکی آمیز تحریر موجود تھی۔اس سارے کیس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ جن ججز کو یہ خطوط ملے ان میں قدر ِ مشترک کیا ہے ۔پھر یہ خطوط اسلام آباد اور لاہورہائی کورٹس کے ججز کو ملے کراچی ،پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹس کے ججز کو کیوں نہیں ملے ۔یعنی وہ تینوں ہائی کورٹس تحریک ناموس پاکستان کے نزدیک بالکل درست کام کررہی ہیں ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا خط بھی ان خطوط میں ایک اہمیت حیثیت حاصل کر چکا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی میں مبینہ فیورٹ ازم اور صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)