زین الملوک
درس و تدریس ایک مقدّس پیشہ ہے، جس کے لیے بے پناہ لگن، صبر و تحمل اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان خصوصیات کے حامل اساتذہ ہی اپنے طلبہ کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ ایسے معلّمین نہ صرف علم فراہم کرتے ہیں بلکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں مہارت کے درجے تک پہنچانے کے لیے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں مختلف مثالوں کی مدد سے ایک عظیم استاد میں پائی جانے والی خصوصیات کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
جوش وجذبہ
عظیم اساتذہ اپنے متعلقہ مضامین کے ضمن میں خاصے پُرجوش ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جو مضمون پڑھاتے ہیں، اُس کی گہری سمجھ بوجھ اور اُس سے قلبی محبّت رکھتے ہیں اور اپنے علم کو طلبہ کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے اسباق کو دِل چسپ، پُر لطف اور متعامل (Interactive) بنانے کے لیے نِت نئے طریقے تلاش اور ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ نیز، وہ ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پُر عزم رہتے ہیں کہ ان کے طلبہ بھی اس عمل کو سیکھیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔
بالی وُوڈ کی مشہور فلم، ’’چَک دے انڈیا‘‘ میں شاہ رُخ خان نے ساحر خان کا کردار ادا کیا، جو بھارتی ہاکی ٹیم کا سابق کھلاڑی اور خواتین کی قومی ہاکی ٹیم کا کوچ ہوتا ہے۔ ساحر خان ہاکی اور اپنی ٹیم کی کام یابی کے سلسلے میں ہمیشہ پُر جوش رہتا ہے اور اپنی شاگردوں کی تربیت اور ان میں جذبۂ فخر و عزم پیدا کرنے کے لیے اَن تھک محنت کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
صبر و تحمل
عظیم اساتذہ صابر اور متحمّل مزاج ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ تمام طلبہ کو ایک ہی انداز سے نہیں سکھایا جا سکتا اور وہ ہر طالب علم کی منفرد ضروریات پوری کرنے کے لیے صبروتحمل سے کام لیتے ہیں۔ نیز، وہ مختلف سوالات کے جواب دیتے اور تصوّرات کی وضاحت کرتے ہوئے بھی بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور طلبہ کے بار بار سوال پوچھنے پر بھی اُن سے شفقت سے پیش آتے ہیں۔
اس ضمن میں این سلیوان کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جو بصارت و سماعت سے محروم ہیلن کیلر کی استانی تھیں۔ سلیوان نے نہایت صبر و تحمل سے برسوں ہیلن کیلر کو تعلیم و تربیت فراہم کی اور اُن کی اس محنت کی بدولت ہی وہ بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی بصارت و سماعت سے محروم انسان بنیں۔
اختراعی صلاحیتیں
عظیم اساتذہ تدریسی عمل کو دِل چسپ بنانے اور اپنے طلبہ کو مشغول رکھنے کے لیے ہمیشہ اختراعی (Innovative) طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ روایتی تدریسی طریقوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے ہمہ وقت جدید آلات، مہارتوں اور دل چسپیوں کی جستجو میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ خطرات مول لینے اور نِت نئے طریقے آزمانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اختراعی صلاحیتوں سے مالا مال اساتذہ کی ایک بہترین مثال ’’خان اکیڈمی‘‘ کے بانی، سلمان خان کی صُورت ہمارے سامنے ہے۔
ابتدا میں سلمان خان نے اپنے کزن کی ریاضی کے ہوم ورک میں مدد کے لیے ویڈیوز بنانا شروع کیں اور جلد ہی وہ ہر اُس فرد کے لیے ویڈیوز بنانے لگے کہ جو تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سلمان خان کے اس اختراعی انداز نے درس و تدریس کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور آج خان اکیڈمی مفت آن لائن تعلیم فراہم کرنے والا ایک سرکردہ ادارہ بن چُکی ہے۔
ہم دردی کا جذبہ
عظیم اساتذہ جذبۂ ہم دردی سے مالا مال ہوتے ہیں اور اپنے طلبہ کی ضروریات اور خدشات کو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کو سمجھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ نیز، وہ ایک ساز گار، محفوظ، دِل چسپ اور معاون تعلیمی ماحول تشکیل دیتے ہیں، جس میں طلبہ کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی سہولت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں، عظیم اساتذہ طلبہ کے ساتھ دیگر اساتذہ کی ضروریات اور مسائل کا بھی ادراک رکھتے ہیں اور اُنہیں مفید مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک مثال رام شنکر نکمبھ نامی کردار ہے، جسے عامر خان نے بھارتی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ میں نبھایا تھا۔ نکمبھ نے اس بات کو سمجھا کہ اُن کا ایک طالب علم، ایشان اوستھی ڈسلیکسیا (Dyslexia) کے باعث سیکھنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ لہٰذا، وہ ایشان کے منفرد سیکھنے کے انداز کو سمجھنے کے لیے وقت نکالتے اور اسے کام یابی کے لیے درکار تعاون اور وسائل فراہم کرتے ہیں۔ نیز، وہ ایشان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخّیل کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔
مضمون پر گرفت اور تدریسی مہارتیں
معیاری تدریس کے لیے مواد اور تصوّرات کا علم (Content Knowledge) اور تدریسی مہارتیں ضروری ہیں، لیکن صرف یہی خصوصیات کسی استاد کو عظیم نہیں بنا سکتیں۔ گرچہ ایک عظیم استاد کو اپنے موضوع کی گہری سمجھ بوجھ ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس مواد کو اپنے طلبہ کے لیے قابلِ رسائی اور متعلقہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
عظیم اساتذہ کے پاس تدریسی تیکنیکس کا مکمل علم ہوتا ہے اور وہ متنوّع انداز سے سیکھنے والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی تدریس کو مختلف سانچوں میں ڈھالنے کے قابل بناتے ہیں اور ہمیشہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کمرۂ جماعت میں جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ خود بھی مسلسل سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور اپنے طلبہ سے بھی بڑی امیدیں، توقّعات رکھتے ہیں تاکہ وہ سخت محنت کا سلسلہ جاری رکھیں۔
نیز، اچھے اساتذہ ہمیشہ اپنی کارکردگی، تدریسی مہارتوں، سیکھنے کے عمل، روّیوں، تاثیر، کام یابیوں اور علم کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بناتے رہیں۔ جیساکہ فلم، ’’تارے زمین پر‘‘ میں رام شنکر نکمبھ اپنے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخیّل کو فروغ دینے میں مدد کرنے کے لیے پُرجوش ہوتا ہے۔
نکمبھ علم اور تدریسی مہارتوں کے باعث معروف ہے اور اپنے طلبہ سے ذاتی سطح پر رابطے قائم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بالی وُوڈ مووی، ’’ہچکی‘‘ میں رانی مُکھر جی نے غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل معلّمہ، نیہا ماتُھر کا کردار نبھایا۔
اس فلم میں رانی مُکھرجی کو تدریس کا بے لوث جذبہ رکھنے والی معلّمہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو بے شمار مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود نہایت صبر و تحمّل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مقصد پر قائم رہتی ہیں اور اپنے طلبہ سے کبھی غافل نہیں ہوتیں۔ وہ اُنہیں مشغول رکھنے کے لیے نِت نئی تعلیمی سرگرمیاں تلاش کرتی رہتی ہیں۔
اُن کے جدید تدریسی طریقے اور تجربات اُن کی مؤثر انداز میں سیکھنے کی جستجو میں خطرات مول لینے کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ سے گہری ہم دردی رکھتی ہیں اور اپنے ہر طالب علم کی منفرد ضروریات کو سمجھنے اور ان پر توجّہ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ نیز، اُن کے پاس مضمون پر دسترس اور تدریسی مہارتوں کا ایک خزانہ موجود ہوتا ہے، جو اُنہیں مؤثر ہدایات فراہم کرنے اور اپنے طلبہ کو تعلیمی فضیلت کی طرف راہ نمائی کے قابل بناتا ہے۔
مذکورہ بالا مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عظیم استاد متعدد خوبیوں اور مہارتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جو طلبہ کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ عظیم اساتذہ درس و تدریس کے لیے ساز گار ماحول تشکیل دیتے ہیں، طلبہ کو مختلف انداز سے سکھانے کے لیے نِت نئے تجربات ، ٹیکنالوجی کو با معنی انداز میں استعمال کرتے ہیں اور طلبہ کے بہترین مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔