• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے بعد وجود میں آنے والی موجودہ جدید دنیا کی 76سالہ تاریخ میں چست و سست ترقی پذیر کیا ترقی یافتہ ممالک بھی مختلف انواع کے بحرانوں سے دوچار ہوئے اور ہیں لیکن جو نوعیت پاکستان کے بحرانوں کی ریکارڈ ہو رہی ہے اس میں ہم اب کسی طور اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ایک متفقہ دستور کے حامل ملک کا اولین تشخص اس مملکت کا مسلسل بحران میں مبتلا رہنا بن گیا ہےجبکہ اسی عرصے میں پاکستان جتنی اور اس سے بھی بڑی آبادی (یا کم ) کے کتنے ہی ترقی پذیر ممالک ،مثلاًبھارت، کوریا، انڈونیشیا و ملائیشیا ،بنگلہ دیش جو ایشیائی ممالک ہیں ، پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ ماہرین سیاست قومی بحران کی کوئی بھی تعریف کر لیں کسی ایک یا زیادہ سب اور ہر تعریف پر سب سے زیادہ ہماری مملکت ہی بحرانی ریاست کی بدقسمتی کے اولین درجے پر ہو گی۔ہم عجیب قوم اور عجب ہی مملکت ہیں اگر واقعی ہم ہی وہ بدنصیب ملک اور معاشرہ ہیں جو مسلسل بحرانوں میں رہتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پارٹیشن آف انڈیا کے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ کے پرآشوب سیاسی ماحول میں بعض کانگریس رہنمائوں کے اس دعوے اور پشین گوئی کے مطابق کہ یہ ملک دوبارہ بھارت میں مدغم ہونے پر مجبور ہو جائے گا دولخت ہو کر باقیماندہ (پاکستان) اگلے 25سال کے اختتام پر ایٹمی کیسے ہو گیا ؟ترقی بھی ہوئی اور ادارہ سازی میں بھی کوئی کمی نہ رہی اس کے نتیجے میں یہ تھیوری بھی بنتی ہے کہ پاکستان کا یہ بڑا بحران ایک بڑے کامیاب لیکن متنازع ’’سنبھالے‘‘ کو بھی جنم دیتا ہے جس میں قریبی پس منظر کا بہت کچھ بگڑا سنبھل جاتا ہے لیکن یہ سنبھال بذات خود ایک بحران اور متنازع بھی ہوتا ہے جو قوم کے اتحاد، تنظیم اور یقین و اعتماد کیلئے مہلک اور چیلنج بن جاتا ہے حقیقت میں یہ سنبھال (ہینڈلنگ) زیادہ تباہی مچاتا ہے پھر کسی ناپائیدار سنبھال کو جنم دے کر لوگوں کو مطمئن اور کسی حد تک بگاڑ پیدا کرنے والوں کو بھی وقفے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ وقفے میں اسی متنازع ’’سنبھال‘‘ پر گزارا کریں اور اسے اکھاڑنے کی تاک میں رہیں اس حوالے سے انہیں عوامی رویوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے جو بچارے ایمپاورڈ تو بالکل نہیں ہوتے تھے لیکن ان کی بڑھتی بے چینی اور مسلط حکمرانوں سے بیزاری حکومتوں کیلئے ایک بڑا چیلنج اور دبائو بن جاتا ہے۔

آج کی بڑی حقیقت جس طرح سراپا بحرانی پاکستان ہے اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ بگڑی اور اخلاق سے عاری بکھری، پریشان حال قوم کی چارہ سازی خدا نے کر دی یہیں تو یہ بات پکی اور سچی ہوتی جا رہی ہے کہ جو بھی کچھ جتنا بھی بگڑا دائروں کا مسافر پاکستان اپنے اجتماعی گناہوں اور قومی گمراہی کے نتیجے میں خود اپنے لئے اور پوری دنیا کیلئے تماشہ بنا ہوا ہے ۔ہمارا دین ایمان ثابت شدہ ہے اور خدا ہی ہماری چارہ سازی کئے جا رہا ہے اور ہم نازاں کہ ہم مملکت خداداد کے باسی ہیں ۔لیکن بحرانی پاکستان کی نئی نئی اور پہلے سے زیادہ شدید بحرانی شکل میں قائم تو ہے لیکن یہ قائم دائم اب ایک بڑا سوال نہیں بن گیا ؟ جی ہاں بن گیا پاکستان کے دوسالہ جاری بیک وقت آئینی و سیاسی و انتظامی اور سب سے بڑھ کر بدترین قومی و انفرادی معاشی بحران اور بدترین حالت میں دائروں کا بھی سفر عبور کرکے ان حدود وقیود میں آگئے ہیں جو صرف ریڈلائن کراس کرنے کا نہیں بلکہ ہمارے مکمل جکڑے اور پکڑنے جانے کا پتہ دے رہی ہے یقیناً ہم وہ خطرناک لائن عبور کر چکے جس پر آگے گڑھے ہی گڑھے ہیں سو سراب نظر کی طرف قدم ہی نہیں بڑھایا جا سکے گا ،جو بڑھائے گا گڑھے میں جائے گا پوری قوم تو سراب کے دھوکےمیںنہیں، تقسیم تو ہے اور بری طرح ہے لیکن پیپلز ایٹ لارج نے ریڈلائن عبور نہیں کی ممالک اور قوم کا ریڈلائن کراس ہونا اس لئے لگ رہا ہے کہ یہ ریاست کے کرتے دھرتوں نے کی ہے ابھی تک تو وہ ہی قوم اور وہی مملکت بنے ہوئے ہیں اس بار سنبھالا کوئی طالع آزما دیتا نظر نہیں آ رہا وہ تو خود سراپا بحرانی ہو گیا حقیقی ایمپاورڈ خود عوام جیسے تیسے جتنے بھی ہوگئے قرآنی احکامات کے مطابق خلق خدا نے جبر وصبر، بھوک و پیاس، مہنگائی سے ہانپتے کانپتے 8فروری کو اپنے ہاتھ میں لیکر قوم و ملک بحیثیت مجموعی ریڈ لائن عبور کرنے سے روک دیا اب گویا قوم کو خود اپنی حالت آپ بدلنے کی سوچ اور خود سے پیدا ہو گئی اب کرتے دھرتوں کا لائن عبور کرکے گڑھوں کی طرف جانا کوئی معنی نہیں رکھتا نقصان تو بہت پہنچے گا جیسے کہ بڑے بڑے خسارے ہمارا معمو ل ہیں فقط کج بحثی اور شخصی رویوں اور شخصیت پرستی نے قوم و ملک کی تباہی میں سب ہی گمراہ کن کردار ادا کیا ہے لیکن عوامی رویے معمولی درجے کے بھی مثبت ہوں تو اقوام سنبھل جاتی ہیں۔

آج اسٹیٹس کو کی طاقتوں کے تمام تر ظلم و جبر اور آمریت و فسطائیت اور لاقانونیت و دوقانونیت کے مقابل عوام نے خود کو آئین کی ڈوری سے باندھ لیا ہے بہت خوش کن غور فرمائیں وفاقیت فروغ پذیر اور علاقائیت اب فقط گلی سڑی سیاست کا کارڈ ہے جو عوامی مینڈیٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا درست کہ پیدا کی گئی مہنگائی کے مارے عوام لاغر و نحیف ہیں لیکن ذہن اور آنکھیں بیدار اور کھلی اور جذبے جواں ہیں جکڑا بحران جس تواتر سے انڈے بچے دے رہا ہے اور نکلتے بحران ایسے ہی جنم پر لگ گئے ہیں اس نے ملکی نظام و عدل کو تباہ وبرباد کر دیا ہے اب اس نے خود ہی ٹوٹنا ہے عوام کا اس پر اعتماد مکمل ختم سب سمجھ رہے ہیں غلط ہے کہ عوام کے تمام تر جذبات و احساسات کوسوشل میڈیا کی طاقت سے اس بار فقط پندرہ بیس فیصد مثبت آراو رہنمائی سوشل میڈیا کے زور سے بگڑے نوجوان کے طبقے کے گڈبوائز اینڈ گرلز سے مل رہی ہے اگر سوشل میڈیا اسٹیٹس کو کی طاقتوں کے لئے اپنے کافرانہ کرتوتوں کے باوجود عوام اور پاکستان کی بھلائی میں کچھ بہتر کر رہا ہے اور عوام پر اس کا اعتماد بڑھ رہا ہے تو اس کی ذمے داری حقیقی عوامی مینڈیٹ سے محروم اور اولیگارکی فن کاری سے تشکیل و مسلط اس میڈیا پالیسی پر عائد ہوتی ہے جس نے تیزی سے فروغ پاتے (بہ لحاظ حجم) مین اسٹریم میڈیا کو عوام کی نظر میں نکو بنا کر رکھ دیا ہے جس کے ا یجنڈے میں پبلک افیئرز کے لئے کوئی جگہ نہیں جتنی ہے اشرافیہ کے دفاع اور اس کی مزاحمتی قوت پر تبرے کے لئے ہے پھر بھی ایسے اشاریے آنے لگے ہیں جس میں غیر معمولی حد تک انشا اللّٰہ بہت کچھ ٹھیک ہو جائے گا بحرانی پاکستان کو بحرانوں سے مستقل نکالنے کا کم از کم آغاز تو ہوا چاہتا ہے اگلے آئین نو میں ایک عملی حل کا انتظار کیجئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین