اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کسی وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کئی واقعات بتا سکتے ہیں جب مداخلت ہوئی، اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے۔
جسٹس ا طہرمن اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے مداخلت کو ثابت کر دیا، گزشتہ سماعت سے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، قیاس یہ ہے کہ ریاست نے ججوں کے ذاتی ڈیٹاحاصل کیے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں؟ یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے مزید سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی جبکہ 6 مئی تک درخواست گزاروں کو تجاویز جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی۔
6 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے عدالت میں دلائل جاری ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں موجود وکلاء اور دیگر غیر متعلقہ افراد کو ہدایت کی عدالت میں سنجیدگی سے بیٹھیں، بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تو چلے جائیں ورنہ خاموش رہیں، عدالت کی سماعت کو سنجیدہ لیں، کسی کوعدالت میں بات چیت کرنی ہے تو باہر بھیج دیں گے، کون سی چیزیں ہیں جو ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائی کورٹس سے تجاویز مانگی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کے آغاز سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطۂ نظر اہم ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھا جائے، میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ ہو، 2 ججز کی دستیابی نہیں تھی، اس لیے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکا، دیگر دستیاب ججز ملے اور کہا کہ سماعت ملتوی ہوئی تو مسئلہ ہو گا، ججز نے کہا کہ پہلے ہی ملک میں تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطۂ نظر کے پرچار میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، اگر کوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مداخلت اندر سے ہو سکتی ہے، باہر سے بھی، مداخلت انٹیلی جنس اداروں، آپ کے ساتھیوں، فیملی کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے، مداخلت سوشل میڈیا کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی طرف سے ہو سکتی ہے، ہم کنڈکٹ سے دکھائیں گے کہ مداخلت ہے یا نہیں، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے؟ ججز کا حکم نامہ بتاتا ہے کتنی آزادی ہے؟ کتنی نہیں؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ہم مداخلت کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیتے، ہر کسی کی مختلف سمجھ بوجھ ہو سکتی ہے، میں سپریم کورٹ کی تاریخ کا ذمے دار نہیں ہوں،میں صرف اس چیز کا ذمے دارہوں جو میرے چیف جسٹس بننے کے بعد سامنے آئی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے توثیق کی ہے اس بات کی جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں، اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباؤ ہو، ہمیں اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائی کورٹس کو با اختیار کرنا ہے، عدلیہ کو با اختیار بنانا ہے، ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے متعلق سنہری موقع ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ کوئی صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے 2 ججز کو ٹارگٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے، چاہے پارٹی ہے یا نہیں، وہ دے سکتا ہے۔
اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر قیوم نیازی اور مشال یوسف زئی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں مداخلت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا ہو گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ریاست کو عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ حکومت بے بس ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے خیال میں جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے اس سیٹ پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سامنے ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز نے بھی مداخلت کی بات کی ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فیض آباد دھرنا ازخود کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کس نے نظرِ ثانی درخواستیں دائر کیں؟ ہائی کورٹ کے ججز نے کہا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج یہ نہ ہوتا، 5 سال تک اس کیس میں نظرِ ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں، اگر 5 سال پہلے یہ مقرر ہو جاتیں تو اس کام میں آسانی ہوتی، سپریم کورٹ میں جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا، موجودہ حکومت نے بھی اس کیس میں نظرِ ثانی واپس لے لی، ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، عدلیہ میں، حکومت میں اور وکلاء میں بھی اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایجنسیاں وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت نہیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، یہ مسلح افواج کا معاملہ ہے، وہ ملک کے محافظ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں طریقہ کار پتہ ہے، کون سا کیس لگنا ہے؟ کون سا کیس نہیں لگنا؟ جب سے حلف اٹھا لیا، سپریم کورٹ میں ملی بھگت کو ختم کر دیا ہے، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ دھرنے کے پیچھےجنرل فیض حمید تھے، جب حکم آ گیا تھا کہ قانون سازی کریں تو کریں، جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہو گی تو دوسرے طاقت ور ہو جائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم نے تو کچھ کر کے دکھایا ہے، آپ بھی کچھ کر کے دکھائیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سچ بولنا ہمارا فرض ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سچ بولا، ان کے ساتھ کیا ہوا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا قیام ہوا، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، پہلے اپنا گھر ٹھیک کرتے ہیں پھر آپ کی طرف آتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے خیال میں بیوروکریسی کے پاس فون نہیں آتے کہ یہ کر دیں وہ کر دیں؟ ایک تو یہ ہے کہ میکانزم ہے تو کر لیا، بیوروکریسی کے پاس تو کچھ میکانزم نہیں، وہ بہت کمزور ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے، ہمارے پاس میکانزم ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے بہت اچھی بات کی کہ ہمیں اپنے دروازے بند کرنے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سب سے پہلے سپریم کورٹ کو اپنا دروازہ بند کرنا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر واقعی اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو قانون سازی سے شروع کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر 6 ججز کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو باقی ججز کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہو گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا، کیا آپ نے کوئی احتساب کیا؟ کوئی بھی ہو آپ احتساب کرنے سے اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ ہمیں اپنی مسلح افواج کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے، یہ ہمارے فوجی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نظام سے بگاڑ ختم کرنا ہے، افتخار چوہدری کیس، بے نظیر بھٹو کیس، دھرنا کیس کی مثالیں موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز پارلیمنٹ نے بنائے، پارلیمنٹ یہ کام نہ کر سکے تو سندھ اور بلوچستان اسمبلی یہ کام کر سکتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سول بالادستی نہیں ہے، آئین کو محض کاغذ کا ٹکڑا بنا دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہاں جتنے لوگ بیٹھے ہیں سب عدلیہ کی آزادی کے حق میں ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں ہائی کورٹس کی اہمیت کو کم نہیں کرنا، ہمیں اس کیس میں احتیاط سے کام لینا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 3 ہائی کورٹس کا آپ نے پڑھ لیا، سب نے کہا کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم سب ہائی کورٹس سے آئے ہیں، ہم سمجھتے تھے کہ سپریم کورٹ کا ڈنڈا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ججز کو اپنے حلف کے ساتھ بے خوف ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آزاد ادارہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اہم معاملات میں ایگزیکٹیو کو ایڈوائس کیا جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایگزیکٹیو کی آئینی ذمے داری ہے کہ اداروں کو کنٹرول کرے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بلوچستان ہائی کورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میرے خلاف بھی کارروائی کر سکتی ہے، اگر واقعی اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو قانون سازی شروع کریں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے ابھی پڑھا ہے کیا لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد رہا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ملک میں 3 ایجنسیاں ہیں، یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں؟ آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس بابر ستار نے شکایت کی کہ ان کے ساتھ کیا کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہ میرے پاس، نہ وکلاء کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ جس سے عدلیہ کی آزادی ہو، یہ ایک سفر ہے، جمہوریت بھی ایک سفر ہے، 2020ء ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا، اجلاس میں کہا کہ یہ انٹیلی جنس کی رپورٹس ہیں، اس اجلاس میں میرا نوٹ پڑھ لیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ اس وقت چیف جسٹس گلزار احمد تھے۔
اٹارنی جنرل نے 2020ء کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ پڑھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز جوڈیشل کمیشن کی ممبر نہیں ہیں، میں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹ کو زیرِ غور نہیں لائیں گے، کیا چیف جسٹس ایک جج کو بلا کر کہہ سکتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ایسا کرنا ہے؟ مکران کا سول جج بھی اتنا طاقت ور ہونا چاہیے جتنا چیف جسٹس ہے، چیف جسٹس کی جرأت کیوں ہو کہ وہ ایک سول جج کے کام میں مداخلت کرے، جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں تو ہم عدلیہ کی آزادی کو کم کرتے ہیں، جب ہم جے آئی ٹی بناتے ہیں تو ہم عدلیہ کی آزادی کم کرتے ہیں، جے آئی ٹی انسدادِ دہشت گردی قوانین کے علاوہ کہیں نہیں بن سکتی، ہر قسم کی مداخلت چاہے وہ فون کال سے ہو یا عدلیہ سے نہیں ہونی چاہیے، کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمات میں خود مداخلت نہیں کی، ہمیں عدلیہ کے اندر بھی احتساب کی بات کرنی چاہیے، میرے چیف جسٹس بننے کے بعد ایک بھی شکایت میرے رجسٹرار آفس میں نہیں آئی، ہم ماضی کی شکایات کا جائزہ لے رہے ہیں، سلیکٹیو احتساب بد ترین احتساب ہوتا ہے، ماضی میں جو ہوا ہوا، اب سچ بولیں، اگر ہمیں صرف الزام لگانے ہیں تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہو گا، ہمیں واقعات بتائیں، میں کئی واقعات بتا سکتا ہوں جب مداخلت ہوئی، طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، طے کر لیں ہم کسی وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، عدلیہ میں ایک اور مداخلت وکلاء بار کےصدور کی ججوں کے چیمبر میں آمد ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے مداخلت کو ثابت کر دیا، گزشتہ سماعت سے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، قیاس یہ ہے کہ ریاست نے ججوں کے ذاتی ڈیٹا حاصل کیے۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ جج کا خط لکھنا غلط بات نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے سب سے زیادہ چیزیں کہی ہیں، پشاور ہائی کورٹ کہتی ہے کہ انہیں باہر سے دھمکیاں آتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
سپریم کورٹ میں 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت ملتوی کرتے ہیں، 7 مئی کو ساڑھے 11 بجے دوبارہ سماعت ہو گی، 7 مئی تک جو جو جواب داخل کرانا چاہتا ہے کرا دیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ اس پر فل کورٹ بنا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ کو ہم پر اعتماد نہیں ہے، ایسا کریں گے تو ہمیشہ کیس چلتا رہے گا۔
چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ میری فل کورٹ کی کوئی درخواست نہیں ہے، میں موجودہ بینچ سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کاحکم نامہ لکھوایا جس میں کہا کہ 5 ہائی کورٹس نے اپنی تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کو آئندہ سماعت تک جواب جمع کرانےکی ہدایت کی گئی ہے، یہ مدد گار ہو گا اگر بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز ایک ساتھ ایک جواب لے کر آئیں، متفقہ نکات کے ساتھ ساتھ غیر متفقہ نکات الگ سے فائل کیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو بھی بار ایسوسی ایشنز جواب جمع کرانا چاہتی ہیں وہ کرائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 6 مئی تک درخواست گزار تجاویز داخل کر دیں تاکہ ہم پڑھ سکیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 5 ہائی کورٹس نے اپنی سفارشات تجاویز داخل کیں، ہائی کورٹس کی تجاویز اٹارنی جنرل نے پڑھ کر سنائیں، سپریم کورٹ بار کے عہدے داروں کی میٹنگ نہیں ہو سکی، مختلف بارز اور بار کونسل متفقہ طور پر، اتفاق نہ ہو تو انفرادی جو بات داخل کر سکتی ہیں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کیے گئے تھے، پاکستان بار کونسل کی جانب سے تحریری معروضات جمع کرائی گئی، عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی میٹنگ نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کو اس مقدمے میں پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ تجاویز لکھ کر دے دیں ہم انہیں ضرور دیکھیں گے۔
تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی بھجوائی ہوئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم بھی دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی بھجوائی ہوئی سفارشات پہلے پڑھنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کےمطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون سے نکات ہیں جن پر ہائی کورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سب نکات پر خود ہائی کورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائی کورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے، سپریم کورٹ بھی ہائی کورٹ میں مداخلت نہیں کر سکتی، ماضی میں ایسی مداخلت کے نتائج اچھے نہیں آئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہمیں ہائی کورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی رسپانس نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائی کورٹ کے جج اٹھا رہے ہیں، آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں ہائی کورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے، ہر کسی کی بھیجی چیزوں پر نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کے لیے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں، ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت مسلسل جاری معاملہ ہے، صرف ایک معاملہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کیسے یقینی بنائی جائے، حکومت، انتظامیہ اور اس کے ادارے کسی جج کے کام میں مداخلت نہ کر سکیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں دل سے جمہوریت پسند ہوں، ہمارے سامنے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل ہیں، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار اپنی تجاویز دے دیں، ہم اس معاملے کو حل اور ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر 200 تجاویز آئیں گی تو اور زیادہ وقت لگے گا، جسے تجاویز دینی ہیں وہ لکھ کر دیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ججز کے خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں خود اس پر فیصلہ کر لیں، سب فریقین کو سننا مشکل ہو جائے گا، تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں، کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دیتے ہیں۔