ننگی آنکھ کو گرد وپیش میں دکھائی دینے والی کوئی بھی سرگرمی غلطی سے حرکیات کے مترادف سمجھی جاتی ہے ، لیکن ذہن میں یہ سوچ جاگزیں ہے کہ اس افراتفری سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ تو یہ ہے وہ صورت حال جسے غیر فعالیت پر پردہ ڈالنے کیلئےپیدا کیا گیا ہے۔توقع کے مطابق کچھ دیر کے بعد ہر چیز معمول کی خاموشی کی دھند میں چھپ جاتی ہے ۔ سرگرمی کا تعین اس سے اٹھنے والے ہنگامے سے نہیں ہوتا ۔ یہ توپیدا کردہ وہ صورت حال ہے جس کے ذریعے زنگ آلودذہنوں کا پتہ چلتا ہے جنھیں اس کی حقیقی اہمیت سے کوئی تو سروکار نہیں ، لیکن اس میں دلچسپی بس اتنی بس اتنی ہے کہ اس کا انھیں فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کا تحریر کردہ خط ایک کلاسک مثال ہے کہ کس طرح سرگرمی کا تاثر ارزاں کرنا کچھ کی پیشانی شکن آلود کرسکتا ہے ۔ لیکن ایک مرتبہ جب معاملہ دب گیا تو کوشش ہورہی ہے کہ اسے قالین کے نیچے چھپادیا جائے ۔ سماعت کے روز ، جوبراہ راست دکھائی گئی ، محترم چیف جسٹس کیس کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کوشش میں دکھائی دیے کہ وہ کس طرح خود کوتنازع کی زد میں آنے سے بچائیں ۔ یقینا ًانھیں اس امکان سے خوفزدہ ہونا چاہیے ۔ ججوں کے خط کا مخاطب سپریم جوڈیشل کونسل تھی ، اور ا س میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کے اہل کاروں، ایگزیکٹو ( وزیراعظم)، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا۔ آخری دونوں پر اغماض برتنے کا الزام ہے کیوں کہ انھیں زبانی اور تحریری طور پر صورت حال سے آگاہ کیا جاتا رہا لیکن اس کے تدارک کے لیے کچھ نہ کیا گیا ۔
سچائی کا پتہ لگانے اور قصورواروں کو سزا دینے کے عزم کو ثابت کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط میں دی گئی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے تھا:سب سے پہلے ایک عدالتی کنونشن بلائیں تاکہ تمام حاضرین کو بات کرنے کی اجازت دے کر عمل کی وسعت کا پتہ لگایا جا سکے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں انہیں کس قسم کے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس کو فل کورٹ بلانا چاہیے تھا تاکہ اس صورت حال پر مکمل بحث کی جائے اور اس کا کوئی حل نکالا جائے۔چیف جسٹس کا وزیر اعظم سے ملاقات/مشاورت/ٹی او آرز کے ساتھ انکوائری کمیشن بنانے اور اس معاملے کی کارروائی شروع کرنے کے لیے اس کے سربراہ کا انتخاب کرنے کا اختیار دینا سارے معاملے کوقالین کے نیچے چھپانے کے مترادف تھا کیونکہ اس کمزور ادارے سے کچھ نہیں ہوگا جو ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو طلب کرنے کے اپنے قانونی اختیار کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ایسا کرتے ہوئے وہ خود تنقید کا نشانہ بنا، اوریقیناً یہ بلاوجہ نہیں تھا۔ اس پر پوری صورتحال کو غلط طریقے سے سنبھالنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کیس کی سماعت کے پہلے دن چیف جسٹس خود کو بے گناہ قراردینے میں مصروف پائے گئے۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے اٹارنی جنرل کے کندھے کا فراخدلی سے استعمال کیا جنھوں نے مسکراتے ہوئے یہ سہولت فراہم کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ وہ اگلی تاریخ پر فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے شروع ہی میں ایسا کیوں نہیں کیا، جیسا کہ قانونی برادری کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا؟ خود کو تنقید سے بچانے کی کوشش ایک معمہ ہی رہے گی۔ تاخیر سے اٹھایا گیاقدم ان کے دامن پر لگا غلط تدبیر کا داغ نہیں دھوسکتا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کے کارندوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کی سنگین عادت ججوں پر غیر ضروری دباؤ ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اپنی پسند کے فیصلے کرانا ہے ۔ اس کی سماعت سے پہلے ہی مؤثر طریقے سے سمجھوتہ کر لیا گیا ۔ اسے گڑھے سے نکالنے کیلئے بے پناہ ہمت اور حکمت درکار ہوگی۔
سب سے پہلے چیف جسٹس بنچ سے خود کو الگ کر لیں اور فل کورٹ کے باقی ججوں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے اور آگے بڑھنے کے طریقے طے کرنے دیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا کسی فرد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک پورے ادارے سے متعلق ہے جو ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک ہے۔ ماضی میں اس ادارے کی کارکردگی میں بہت سی تشنگی باقی رہ گئی تھی۔ آئیے یہ نہ بھولیں کہ اس کے ججوں نے آئین کو سبوتاژ کرنے والے فوجی آمروں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے اقدام کی نظریہ ضرورت کے تحت توثیق کی ۔ کیا عدالتی عمل کی اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور پامالی ہوسکتی ہے ؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ حاضر سروس ججوں کا لکھا ہوا یہ خط پاکستان کی داغدار سیاسی اور عدالتی تاریخ میں ایک بے مثال پیش رفت ہے۔ ججوں کی جرأت اور دانشمندی کی بدولت یہ افراد اور اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس معاملے کی حقیقی انکوائری کرائی جائے تاکہ ان خون آشام طاقتوں کوڈھونڈ نکالا جاسکے جنھوں نے ریاست کے جسم کو گھائل کررکھا ہے۔سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو جو لفافے پہنچائے گئے وہ کسی مذموم ارادے کے بغیر نہیں ۔ ججوں کو ان کے کاموں کی انجام دہی سے ڈرانا صرف ان لوگوں کے مفادات کو پورا کرے گا جن پر عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا الزام ہے۔ لفافوں میں اینتھراکس کی مبینہ موجودگی اس پورے منصوبے کو اور بھی بدنما بنا دیتی ہے۔
اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے ایک شکایت درج کی گئی ہے۔ اس پر مناسب فورم پر بحث ہونی چاہیے، جو سپریم کورٹ کا فل بنچ ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے اپنے طرز عمل سے خود کو متنازع بنا دیا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے انھیں خود کو الگ کرنا چاہیے اور باقی ججوں کو اس معاملے کو انجام تک پہنچانے کا موقع دینا چاہیے۔ اسے غلط طریقے سے ہینڈل کرنا یا اسے درمیان میں چھوڑنے سے ریاست کو شدید زک پہنچے گی جس سے عدلیہ کا مستقبل بھی تاریک سایوں کی زد میں آجائے گا۔
ریاست کو گدھوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اس کے اداروں کے لیے باعث شرم ہے۔ اگر تدارک نہ کیا گیا تو یہ لامحالہ بکھرنا شروع ہوجائے گی۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکر ٹری انفارمیشن ہیں)