فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز طور پر قابض اسرائیلی ریاست کی عائد کردہ پابندیوں کے باعث برسوں سے غزہ کے علاقے میں محصور مظلوم فلسطینی باشندوں کے خلاف چھ ماہ سے جاری اسرائیلی افواج کی وحشیانہ جارحیت بند کرانے میں عالمی برادری کی ناکامی بلکہ اس درندگی پر عملاً تماشائی کا کردار ادا کرنا جبکہ بعض طاقتور ملکوں کا اہل غزہ کا قتل عام جاری رکھنے کے لیے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر فراہمی،انسانی حقوق اور امن و انصاف کی چمپئن ہونے کی دعویدار جدید ترقی یافتہ دنیا کے تضادات کا شرمناک مظاہرہ ہے۔غزہ کی مکمل تباہی اور چالیس ہزار کے قریب انسانی جانوں کے نقصان کے باوجود دنیا میں قیام امن کے ذمے دار اقوام متحدہ کے ادارے میں جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری بھی لیت و لعل کا شکار رہی، جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادیں قابل نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر رہیں جبکہ سلامتی کونسل میں اکثر قراردادیں ویٹو کے جمہوریت کش ہتھیار کا نشانہ بنیں ۔اس سمت میں کچھ پیش رفت ہوئی بھی تو اس کی حیثیت زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں رہی کیونکہ جارح اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی مؤثر عالمی پابندیاں ایسی کسی قرارداد کا حصہ نہیں بنائی جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان قراردادوں کا واقعاتی صورت حال پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوا بلکہ اسرائیل کے حامی ملکوں خصوصاً اس کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کی جانب سے کسی احساس ندامت کے بغیر اپنے لے پالک کو ہر قسم کے ہتھیاروں کی سپلائی کا سلسلہ علی الاعلان جاری ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن کی حیثیت سے پاکستان نے چندروز پہلے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کی معاونت سے غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی فروخت اور فراہمی پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات پر مشتمل ایک قرارداد تیار کی تھی جسے گزشتہ روز انسانی حقوق کونسل نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ قرارداد کے حق میں 28اور مخالفت میں 6ووٹ آئے جبکہ13ملکوں نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔ انسانی حقوق کونسل کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروںکی فراہمی روکی نہ گئی تو اس کا مطلب غزہ کے باشندوں کو نسل کشی کے خطرے سے دوچار کردینا ہوگا۔ قرارداد کا مسودہ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کے 56رکن ممالک میں سے 55کی جانب سے پیش کیا جبکہ البانیہ نے اس عمل میں حصہ نہیں لیا ۔ قرارداد کے متن کی تیاری میں پاکستان کو بولیویا، کیوبا اور جنیوا کے فلسطینی مشنز کی بھی حمایت حاصل رہی۔ آٹھ صفحات پر مشتمل مسودے میں اسرائیل سے فلسطینی سرزمین سے قبضہ اور غزہ کی پٹی کی غیرقانونی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غزہ کو نسل کشی سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت یا منتقلی بلاتاخیر روک دیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی امریکہ کی جانب سے ویٹو نہ کیے جانے کے باعث غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کی منظور ی عمل میں آئی ہے تاہم اصل ضرورت عملی اقدامات کی ہے جس کے آثار اب تک معدوم ہیں۔ فلسطین اور اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی تقریباً اتنا ہی قدیم ہے جتنا ادارہ اقوام متحدہ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد انجمن اقوام متحدہ کا قیام دنیا کو جنگ و جدل، طاقتور کے ہاتھوں کمزور کو حق تلفی سے محفوظ رکھنے اور تنازعات کو طاقت کے بجائے بات چیت سے حل کرنے کی خاطر وجود میں لایا گیا تھا۔تاہم فلسطین و کشمیر میں ناکامی نے اقوام متحدہ کی افادیت پر سوالات اٹھادیے ہیں اور دنیا کے اربوں انسانوں کو اس ادارے کے وجود کے حوالے سے مطمئن کرنے کے لیے ان تنازعات کا انصاف کے تقاضوں کے مطابق جلدازجلد حل کیاجانا ضروری ہے۔