محمّد کاشف
7 اکتوبر 2023ء کوعلی الصباح فلسطین کی جہادی تنظیم، حماس نےاسرائیل پرایک بڑا حملہ کیا۔ حماس کے دعوے کے مطابق اس نے اسرائیل پر5 ہزار راکٹس فائر کیے اور اس حملے میں 12 سو اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ حماس کی اس کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج نے دو دن تک کوئی جوابی حملہ نہیں کیا، تو عالمی میڈیا پر اسرائیل کی فوجی قوّت سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جانے لگیں۔ کسی نے کہا کہ اسرائیلی فوج لڑنے کی صلاحیت کھو چُکی ہے۔
کسی نے بیان دیا کہ حماس کے اچانک حملے نے اسرائیلی فوج کو اتنا خوف زدہ کردیا ہے کہ اب فوج میدان میں آنا ہی نہیں چاہتی، جب کہ تمام ترقیاس آرائیوں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر فوج کومحاذِ جنگ کے لیے بہرحال تیاری کرنا پڑتی ہے اور اُس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ یاد رہے، فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور طاقت وَر کیوں نہ ہو، ہمہ وقت حالتِ جنگ میں نہیں ہوتی۔
مثال کےطور پرگلوبل فائر پاور نامی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت 3,747 فوجی ٹینکس ہیں، لیکن یہ ہمہ وقت سرحدوں پر موجود نہیں ہوتے۔ یہ ٹینکس عام حالات میں فوجی چھاؤنیوں میں ایندھن اور گولہ بارود کے بغیر موجود ہوتے ہیں۔
جب کوئی ریاست جنگ کا فیصلہ کرتی ہے، تو تب محاذِ جنگ پر بھیجنے سے پہلے انہیں ایندھن اور گولہ بارود سے لیس کیا جاتا ہے اور اس میں طویل وقت بھی لگ سکتا ہے۔ لہٰذا، غالب امکان یہ ہے کہ حماس کے حملے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے اسی لیے جوابی کارروائی نہیں کی کہ وہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ بہرکیف، ذیل میں اُن امور کا ذکر کیا جا رہا ہے، جن کے باعث حماس کو پسپائی اختیار کرنا پڑرہی ہے۔
1۔ اسرائیلی افواج:
گرچہ عددی لحاظ سے اسرائیلی فوج ایک چھوٹی سی فوج ہے، جس کی افرادی قوّت لگ بھگ ایک لاکھ ستّر ہزار سپاہیوں پر مشتمل ہے، تاہم تربیت اور جنگی تجربے کے اعتبار سے اسرائیلی فوج ایک طاقت وَر فوج ہے اور اس کا بڑا ثبوت وہ عرب، اسرائیل جنگیں ہیں، جن میں عرب افواج نے متّحد ہو کر اسرائیل پر حملہ کیا اور اسرائیلی فوج نے نہ صرف عرب افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا، مگر کسی عرب مُلک کو اپنی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع نہیں دیا۔
2۔ اسرائیلی عوام:
اسرائیل میں عوام کے لیے فوجی تربیت لازم ہے اور انہیں فوج میں ایک مخصوص عرصہ بھی گزارنا ہوتا ہے۔ قوانین کےتحت ہر اسرائیلی شہری جس کی عُمر 18سال سے زائد ہے اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند ہے، تو اُس پر فوجی خدمات فراہم کرنا لازم ہے۔ فوجی سروس کی یہ مدّت مَردوں کے لیے 32 ماہ اور خواتین کے لیے 24 ماہ ہے۔
تاہم، ایسی رضا کار خواتین کی مدت، جو مختلف فوجی محاذوں پرخدمات انجام دے رہی ہوں، 3 سال ہوتی ہے اور ایسا فوجی تربیت میں صرف ہونے والے اضافی وقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ جنگ اسرائیلی فوج کو کبھی بھی افرادی قوّت کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
3۔ جدید ٹیکنالوجی:
اسرائیل، روزِ اوّل ہی سےسائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اسرائیل کے اندر اور باہر اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیز جدید دفاعی سازو سامان سمیت دیگر مصنوعات کی تیاری میں مصروفِ عمل ہیں اور ان ٹیک کمپنیز کی بدولت ہی اسرائیل اپنی ضرورت کا تقریباً ہر اسلحہ بنانے میں خُود کفیل ہے۔
اس کے علاوہ اسلحے کی عالمی منڈی میں بھی اسرائیلی دفاعی سازوسامان کی بڑی مانگ ہے۔ مثال کے طور پر بھارت، جو کہ خُود ٹیکنالوجی کےمیدان میں بہت آگے ہے، اسرائیلی ساختہ اسلحہ استعمال کرتا ہے۔ نیز، کچھ دفاعی پراجیکٹس میں بھی اسرائیلی تعاون کا طلب گار رہتا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ہی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل حماس و حزب اللہ کے حملوں کی شدّت کو گھٹا کر اپنے شہریوں کو بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچالیتا ہے۔
4۔ مضبوط معیشت:
چاہے باقاعدہ فوج ہو یا کوئی گوریلا فورس، سبھی کی لاتعداد ضروریات ہوتی ہیں، جیسے اسلحے کا حصول، افرادی قوّت کی تن خواہیں، میڈیکل کی سہولتیں اور ایندھن وغیرہ۔ کسی بھی فوج کا حجم جتنا بڑا ہوگا، اُس کی ضروریات بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ اسرائیل ایک مضبوط معیشت کا حامل مُلک ہے۔ نیز، اِسے امریکا کی جانب سے بھاری عسکری امداد بھی ملتی رہتی ہے۔
اِس لیے اسرائیل کے لیے ایک طویل عرصے تک جنگی محاذ پرڈٹے رہنا آسان ہے۔ اس کے برعکس اگر حماس کی بات کی جائے،تواُس کی تمام تر دفاعی ومالی ضروریات ایران پوری کرتا ہے، کیوں کہ غزہ کے عوام اتنےخوش حال نہیں کہ وہ حماس کی ضروریات پوری کر سکیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے ابتدائی دو ماہ میں اسلامی ممالک میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک لہر چلی تھی اور گرچہ اس کے اثرات تاحال برقرار ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں ہنوز اسرائیلی معیشت کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچا۔
5۔ جاسوسی کا نیٹ ورک:
اسرائیلی عوام اور حکومت دونوں ہی اچّھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے عرب علاقوں پر قبضہ کر کے ایک صیہونی ریاست کی داغ بیل ڈالی ہے، لہٰذا وہ پڑوسی ممالک کے خوف کے باعث اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے گرد و پیش سے باخبر رہنے کے لیے فلسطین سمیت دیگر اسلامی ممالک بالخصوص عرب ریاستوں میں اسرائیلی جاسوس ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں اور اسرائیل اپنے اِسی انٹیلی جینس نیٹ ورک کی بدولت ہی اب تک حماس اور حزب اللہ وغیرہ کے کئی بڑے رہنمائوں کوشہید کرچُکا ہے۔
حالیہ حماس، اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی جاسوسوں نے لبنان اور شام میں موجود حماس، حزبُ اللہ اورایرانی پاس دارانِ انقلاب کے کئی اعلیٰ سطح کے رہنماؤں کی موجودگی کی مستند معلومات دیں اور ان کی روشنی میں اسرائیلی فضائیہ نے بروقت حملہ کرکے اپنے اہداف کو کام یابی سے نشانہ بنایا، جب کہ اس کے برعکس حماس ابھی تک اسرائیلی فوج کے کسی بڑے کمانڈر کو نشانہ نہیں بنا سکا۔
6۔ پڑوسی ممالک کا تعاون:
اسرائیل کا جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ اس کے دو اطراف سمندر ہے اور اس کے پڑوس میں چار مسلم ممالک (شام، لبنان، اُردن اور مصر) واقع ہیں۔ شام اور لبنان اسرائیل دشمن قوّتوں سے بَھرے ہوئے ہیں، جب کہ اُردن اور مصر ایسے ممالک ہیں کہ جو اسرائیلی دفاع کو مضبوط بناتے ہیں۔
یاد رہے کہ اُردن اور مصر نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کررکھا ہے اور اسرائیل کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت میں بھی بھرپورتعاون کرتے ہیں۔ نیز، وقتاً فوقتاً اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جینس شیئرنگ بھی کرتے رہتے ہیں۔
7۔ عالمی برادری کی عدم دل چسپی:
حماس کو عالمی برادری بالخصوص اسلامی ممالک سے بھرپوراُمید تھی کہ جب اسرائیل پلٹ کر فلسطین پرحملہ آور ہوگا، تو عالمی طاقتیں اور اسلامی ممالک ضرور مداخلت کریں گے اور فلسطینی باشندوں کو اسرائیلی حملوں سے بچالیں گے، مگر حسبِ روایت ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ تُرکیہ جیسا اسلامی مُلک بھی زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ کرسکا اور اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، بلکہ اسلامی ممالک کی بے بسی کی انتہا تویہ ہے کہ وہ بے یارو مددگار فلسطینی باشندوں کو اپنے مُلک میں پناہ دینے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہے۔
ہر چند کہ کچھ ممالک نے اسرائیلی حملوں کی ’’شدید مذمّت‘‘ ضرور کی، مگر کوئی مُلک بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات توڑنے پر آمادہ نہیں۔ اور عالمی برادری کی اسی عدم دل چسپی، اسلامی ممالک کے زبانی جمع خرچ نے اسرائیل کے حوصلے بڑھائے اور حماس کو شدید مایوس کیا۔
8۔ ایران کا پیچھے ہٹنا:
یاد رہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں پراکسی جنگوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کےچاراسلامی ممالک میں (لبنان، شام، یمن اورعراق) حکومتیں تک ایرانی اشاروں پر چلتی ہیں۔ یہی ایرانی نیٹ ورک اب فلسطین میں بھی سرگرم ہے اور حماس کو فنڈنگ، اسلحہ، تربیت اور ٹیکنالوجی سب ایران ہی کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں۔
ماضی میں شام ایسا مُلک تھا کہ جہاں حکومت کو بچانےکے لیے ایران نے باقاعدہ اپنی فوج بھیجی تھی اور ممکن ہے کہ حماس کو یہ اُمید ہو کہ اگر اُس پر بُرا وقت آیا، تو ایران، فلسطین میں بھی اُسی طرح کی مداخلت کرے گا، جیسے اُس نے شام میں کی تھی، مگر ایران نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اہلِ فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
دراصل، ایران اِس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ حماس، اسرائیل جنگ صرف فلسطین تک محدود رہے گی، مگر اسرائیل نے ایران کی یہ غلط فہمی دُور کر دی ہے اور لبنان اور شام میں براہِ راست ایرانی مفادات کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ لبنان اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ جہادی گروپس غیرمحفوظ ہوچُکے ہیں اور اسرائیل نے جہادی گروپس کے ساتھ شام میں ایرانی فوج کے اعلیٰ کمانڈرز تک کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اور اسرائیل کے اس اقدام ہی نے ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا، نتیجتاً وہ اب سامنے آکر یا کھل کر حماس کو سپورٹ فراہم نہیں کر پا رہا۔
9۔ غیر مؤثر جہادی تنظیمیں:
بےشک، حزبُ اللہ لبنان کی ایک نہایت طاقت ور جہادی قوّت ہے اور اس نے کئی مواقع پر اسرائیل کو ٹف ٹائم دیا ہے، مگر حزبُ اللہ کی جنگی صلاحیت اسرائیل کے مقابلے میں بہت محدود ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حزبُ اللہ نے آج تک اسرائیل میں داخل کر کوئی جنگ نہیں کی اور نہ ہی اسرائیل میں فوجی اعتبار سے کسی اہم مقام کو نشانہ بنایا۔
یہاں تک کہ اسرائیلی ایئر فورس کے جہاز آئے دن لبنان میں حزبُ اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر حزب اللہ آج تک ان جہازوں کو ہدف نہیں بنا سکا۔ یہی معاملہ شام میں موجود اسرائیل دشمن جہادی گروپس کابھی ہے۔ یہ شامی جہادی گروپس اسرائیل کی سرحدوں پرحملے تو کرتے ہیں، مگر یہ اسرائیل پرکوئی قابلِ ذکر حملہ نہیں کرسکے۔ حماس کو یہ اُمید تھی کہ اسے اسرائیل کے خلاف لبنان اورشام کےجہادیوں کی بھرپور معاونت حاصل ہوگی اور اس کے نتیجے میں اسرائیل میدان سےبھاگ جائے گا، مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔
8۔ سپلائی لائن کا خاتمہ:
کسی بھی جنگ میں سپلائی لائن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے فوج کی رسد منقطع ہوجائے، تو طاقت وَر سے طاقت وَر افواج بھی کچھ عرصے میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ رُوس، یوکرین جنگ کے ابتدائی دِنوں کا جائزہ لیں، تو ابتدا میں رُوسی فوج کی سپلائی لائن خراب تھی اور اِسی وجہ سے روسی افواج کی پیش قدمی رُک گئی تھی، مگرجیسے جیسے وقت گزرتا گیا، رُوسی فوج نے اپنی سپلائی لائن بہتر اور محفوظ بنائی اور اب رُوس، یوکرین کے کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوچُکا ہے۔
اِسی طرح افغانستان میں امریکیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ امریکا، طالبان کی سپلائی لائن کاٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہا تھا۔ غزہ میں جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل نے فوری طور پر حماس کی سپلائی لائن کاٹنے کا بندوبست کیا اور یوں حماس، اسلحے اور دیگر جنگی لوازمات کی کمی کا شکار ہوگئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ حماس کے حملوں میں وہ شدت نہیں رہی، جیسی جنگ کے ابتدائی دنوں میں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگوں کا ریکارڈ دیکھا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حماس، اسرائیل سے جنگ چھیڑ تو دیتا ہے، لیکن جیت نہیں پاتا۔ اور ہمیشہ اس کم زور، ناقص منصوبہ بندی کے انتہائی ہول ناک نتائج اَن گنت معصوم، نہتّے، بےگناہ شہریوں کی بڑی تعداد میں شہادتوں ہی کی صُورت سامنے آتے ہیں۔