دوحا کے بین الاقوامی ائرپورٹ میں داخل ہوئے، تو ایک دیوقامت زرد رنگ کے بھالو (لیمپ بیئر ) نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ 23فٹ بلند دیو قامت بھالو ہوائی اڈے میں ایک اسٹیج پر براجمان ہے، جو مشہور سوئس مجسّمہ ساز، عرس فسچرکا ڈیزائن کردہ ہے، اسے قطری شاہی خاندان نے ایک نیلامی میں68لاکھ ڈالر میں خریدا۔ ہم شاید چھٹی باردوحا ائرپورٹ کے اس زرد دیوہیکل بھالو کے سامنے سیلفی بنا رہے تھے، کیوں کہ کئی بار یہاں سے گزرتے ہوئے ٹرانزٹ ویزے کے ذریعے دوحا شہر گھومنے پھرنے کی خواہش دل میں بے دار ہوئی، مگر وقت کی قلّت کے سبب پوری نہ ہوسکی۔
اس بارچین سے وطن واپسی پر دبئی ائرپورٹ میں چوبیس گھنٹے کا قیام تھا، لہٰذا ہم نے اپنے ہم سفرساتھیوں، ڈاکٹر عمران حیدر نقوی اور احمد کمال الدین کو اپنے پچھلے سفر کے قصّے سنا کر قائل کرلیا کہ اس مرتبہ ہمارے پاس پورا دن ہے، ائرپورٹ پر یہ وقت کیسے گزاریں گے، توکیوں نہ دوحا شہر کا ٹرانزٹ ویزا لے کر وہاں کی سیر کی جائے۔ دونوں حضرات نے فوراً آمادگی ظاہر کردی۔ اس طرح 18ستمبر 2023ء کی ایک روشن ہم تینوں صبح ٹرانزٹ ویزے کے حصول کے لیے دوحا ائرپورٹ پہنچ گئے۔
یہاں بھی ٹرانزٹ مسافروں کے لیے دبئی طرز کا طریقۂ کاررائج ہے کہ چاہے ہوٹل میں ٹھہریں یا نہ ٹھہریں، بکنگ لازمی کروانی پڑتی ہے، لہٰذا ہم نے بھی ہوٹل میں رہائش کے لیے بکنگ تو کروائی، مگر یہ الگ بات ہے کہ ہوٹل کا منہ تک نہ دیکھا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اگر حالات اچھے ہوں، تو ملک چاہے ریگستان ہی میں کیوں نہ آباد ہو، زرِمبادلہ کمانے کے مختلف طریقے نکال لیتے ہیں، لیکن اگر حالات اچھے نہ ہوں، توسرسبزو شاداب مُلک کو بھی سیّاحت کے فروغ میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔
اگر اپنے مُلک کی بات کی جائے، توقدرت نے کے ٹو کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر گوادر کے نیلگوں پانیوں تک، بیش بہا قدرتی حُسن سے نوازا ہے، ہم سال کے بارہ مہینے اسکینگ اور سرفنگ سمیت ہرطرح کے سیّاحتی مواقع فراہم کرکے نہ صرف سیّاحوں کو اس جانب راغب کرسکتے ہیں، بلکہ خاصا زرمبادلہ بھی کماسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک اِن خُوب صُورت سیّاحتی مقامات سے وہ فیض اٹھانے سے قاصر ہے، جوذرا سی تگ و دو سے ممکن ہے۔
دوحا اور دبئی کی اسکائی لائن یعنی عمارتوں کا جھرمٹ انتہائی دل کش ہے۔ دبئی میں بلندو بالا عمارتیں ایک ترتیب سے لائن میں کھڑی بھلی لگتی ہیں، لیکن سمندر کے کنارے قطر کی بلندو بالاعمارتوں کے جھرمٹ کی دل نشینی کے تو کیا ہی کہنے۔ فیفا ورلڈ کپ اور فارمولاون کے مقابلوں کے بعد، قطر کی بلندوبالا عمارات کے جھرمٹ ہی نے ہمیں اپنی طرف کھینچا اورقطر دیکھنے کی خواہش دل میں پنپتی رہی۔
ہم نے ہوٹل کی بکنگ ہاتھ میں پکڑی اور دریافت کیا کہ اب کیا کرنا ہے، تو اشارہ کیا گیاکہ اب آپ دوحا دیکھنے جا سکتے ہیں۔ یوں ہم پاسپورٹ کنٹرول کی طرف بڑھے کہ ہمیں ایگزٹ کردیا جائے۔ خاتون افسر نے روایتی مسکراہٹ سے ہماری طرف دیکھا اور ایک لمبے سے شیشے کے سامنے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ شیشے کا رُخ کرتے ہی یکے بعد دیگرے ہم تینوں کے فوٹو اُتارلیے گئے، پھر ہمارے ہاتھوں کی انگلیوں کی عکس بندی کے بعد پاسپورٹ پر مُہر ثبت کرکے قطر میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ دوحا ائرپورٹ کے عملے کی چابک دستی نے ہمیں بہت متاثر کیا۔
یہ واقعتاً لندن کے ہیتھرو اور چین کے ڈیکسنگ ائرپورٹ سے زیادہ فعال تھا۔ دنیا کے جن ائرپورٹس سے ہمارا گزر ہوا، اُن میں امیگریشن کے عمل میں ایسی برق رفتاری کا مظاہرہ ہم نے دوحا ائرپورٹ ہی پر دیکھا۔ ہیتھرو کی تیز رفتار امیگریشن اور ڈیکسنگ کی لاجواب خودکاریت (آٹومیشن) کے باوجود دوحا کی مشینی سہولت کاری اور عملے کی پیشہ ورانہ مہارت نے سب کو مات دے دی۔
دبئی ائرپورٹ کی خُوب صُورتی اور مروجّہ سہولتیں لاجواب ہونے کے باوجود عملے کے پیشہ ورانہ رویّوں کی وجہ سے بعض اوقات مختلف مسائل جنم لیتے ہیں، لیکن پھر بھی دبئی ائرپورٹ کا شمار بہرحال اچھے ائرپورٹس میں ہوتا ہے۔ ائرپورٹ سے باہرنکلے اور پورے دن کے لیے ایک ٹیکسی بک کرکے، اس سے شہر کے مختلف اہم مقامات دکھانے کے حوالے سے بات کی تو اس نے کہا ’’اتنی صبح، آپ صرف سوق ہی جا سکتے ہیں۔‘‘ ’’سوق‘‘ عربی میں بازار کو کہا جاتا ہے اور دوحا کا مذکورہ بازار روزمرّہ زندگی کی اشیاء کی ایک ہول سیل مارکیٹ ہے، جہاں اجناس سے لے کر کپڑے، پرفیومز، کھجوریں، پرندے اور اس طرح کی دیگر اشیاء بہت مناسب داموں میں فروخت ہوتی ہیں۔ اب چوں کہ اس کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہ تھا، اس لیے پہلے سوق جانے ہی کا فیصلہ کیا۔
خلیج فارس کے ساحلوں پر واقع چھوٹا سا خُوب صُورت شہر، دوحا، قطر کا دارالحکومت اور اقتصادی مرکز ہے۔ اس صحرائی علاقے میں موسمِ گرما، سردیوں کی نسبت زیادہ طویل ہوتا ہے۔ گرمیوں میں بعض اوقات درجہ حرارت 47ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ دوحا شہر کی اکثریت غیرملکی تارکینِ وطن پر مشتمل ہے، یہاں امریکا، جنوبی افریقا، برطانیہ، ناروے اور دیگر مغربی ممالک کے باشندے بھی رہائش پزیر ہیں۔ یہ شہر 1850ء میں البدا کے نام سے قائم کیا گیا۔ 1883ء میں شیخ قاسم نے مقامی قطریوں پرمشتمل ایک فوج کے ذریعے عثمانیوں کے خلاف فتح حاصل کی۔
1916ء میں اسے برطانیہ کے زیرِسرپرستی، قطر کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور1971ء میں مُلک کی آزادی کے بعد بھی اسے برقرار رکھا گیا۔ معروف عربی ٹیلی وژن چینل ’’الجزیرہ‘‘ کے صدر دفاتر اور نشریاتی مراکز دوحا ہی میں واقع ہیں۔قطر کی بیش تر تیل و قدرتی گیس کی تنصیبات بھی دوحا میں ہیں۔ پھر ملکی اقتصادی سرگرمیوں کے اس مرکز میں ملک کے بڑے تیل و گیس نکالنے والے اداروں کے صدر دفاتر بھی ہیں، جن میں قطر پیٹرولیم، قطر گیس اور راس گیس شامل ہیں۔
دوحا کی معیشت تیل و قدرتی گیس کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور قطری حکومت تیل پر اس انحصار کو کم کرنے کے لیے ملکی معیشت میں تیزی سے تنوّع لارہی ہے، نتیجتاً شہر بہت تیزی سے ترقی پارہا ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں کے باعث شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے جائداد و تعمیرات کے شعبے میں زبردست ترقی ہوئی اور جائداد کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ گئی ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ،دوحا، جائداد کی قیمتوں کے حوالے سے دبئی سے بھی منہگا شہر ہے۔
تجارتی و کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے باعث یہاں جدید تعمیرات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور شہر بلند و بالا عمارات کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہاں 1973ء میں قائم ہونے والی ’’جامعہ قطر‘‘ میں متعدد جامعات کے علاوہ دنیا کی کئی معروف جامعات کی شاخیں بھی واقع ہیں، جن میں جارج ٹاؤن یونی ورسٹی، ویل میڈیکل کالج آف کارنیل یونی ورسٹی، ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی، ٹیکساس اے اینڈ ایم یونی ورسٹی اور کارنیگی میلون یونی ورسٹی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، تارکینِ وطن کے لیے کئی بین الاقوامی مدارس (اسکول) بھی موجود ہیں۔
دوحا شہر میں قدم رکھتے ہی جس چیز نے سب سے پہلے ہماری توجہ حاصل کی ، وہ یہاں کی صفائی ستھرائی تھی۔ کسی زمانے میں سنگاپور کی صفائی کا بہت چرچا تھااور یہی شہرت ہمیں سنگا پور لے گئی ۔اس کے بعد دنیا کے کئی اچھے اور صاف ستھرے شہر دیکھے، لیکن دوحا کی صفائی کے معیارکا کوئی مقابلہ نہیں۔ پورے شہر میں کہیں کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نظر سے نہیں گزرا،نہ ہی کسی کو کسی بھی قسم کی گندگی پھیلاتے دیکھا۔
سگریٹ نوشی کے لیے مخصوص مقامات مختص ہیں۔ ایسے ہی ایک مقام پر ہمارے ساتھی، احمد کمال الدین نے سگریٹ دان کی بجائے دیوار کے ساتھ گُل گرایا، تو ہوٹل کے عملے کے ایک فرد نے فوراً ٹوکا اور اس حرکت سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ اگر میونسپلٹی والوں نے دیکھ لیا، تو جرمانہ کردیں گے۔ یہاں کی صفائی ستھرائی کا اعلیٰ معیار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہر کا ہر فرد صبح اٹھ کر اپنے گھر کی طرح شہر کی ایک ایک چیز کی بھی صفائی کرتا ہے، اسے چمکاتا دمکاتا ہے۔
عمارتوں پر سلیقے سے کیے گئے رنگ و روغن سے لے کر کھمبوں، کیاریوں، پارکنگ کے لیے مخصوص جگہوں تک ہرطرف صفائی کا بول بالا نظر آیا۔ حالاں کہ ہم جب پہلی مرتبہ لندن گئے تو رات کو کوڑے کے تھیلے جا بجا بکھرے نظر آئے، اگرچہ صبح وہ سب تھیلے اٹھالیے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی لندن کے کوڑا کرکٹ اٹھانے اور صفائی ستھرائی کا انتظام ہمیں متاثر نہ کرسکا۔
سُوق میں کھجوروں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، جہاں بنگلا دیشی باشندوں کا راج ہے۔ بنگلا دیش کے باسی مجھے ہمیشہ اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ جب بھی ان سے سامنا ہوا، اپنائیت محسوس ہوئی۔ باکو میں قیام کے دوران اے۔ڈی۔اے یونی ورسٹی میں ایک بنگلا دیشی پروفیسرسے اکثرملاقات رہتی تھی، ایک دن سقوطِ ڈھاکا پر گفتگو چل نکلی تو کہنے لگے کہ ’’اب اکثر بنگلا دیشیوں کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ1971ء میں جن کا ساتھ دیا، وہ اتنے مخلص نہیں۔ اب ہم جان گئے ہیں کہ کون زیادہ قابل اعتبار اورقابل بھروسا ہے۔‘‘
سوق کی کھجور مارکیٹ میں موجود ایک بنگلا دیشی نوجوان کے دوستانہ رویّے سے متاثر ہوکرہم نے تین اقسام کی کھجوروں کی دو پیٹیاں لے لیں۔ وقت کم تھا، لہٰذا ان کا شکریہ ادا کیا اور سُوق کو خیر باد کہہ کر دوسرے طے شدہ مقامات کا رُخ کیا۔ قطر میں ہونے والی ’’فارمولاوَن ریس‘‘ کے دوران ٹریک پر موجود قوسِ قزح کی مانند ہالہ بہت پُرکشش لگتا ہے۔ ُسوق سے نکلتے ہی ہم نے اس ہالے کے نیچے سے گزرنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو ٹیکسی ڈرائیور نے گاڑی کا رُخ اُس طرف کردیا۔
صاف ستھری، چمچماتی کشادہ سڑکوں کے بیچوں بیچ لگے خوش نما کھمبوں نے اُس کی خُوب صُورتی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پھر شاہ راہوں کے اتار چڑھائو سے ڈرائیونگ اور زیادہ دل چسپ ہو جاتی ہے۔ ہماری کار فرّاٹے بھرتی اس ہالے کے نیچے سے گزری، تو چند لمحوں کے لیے ایسا لگا، جیسے ہم بھی ’’فارمولا ون ریس‘‘ میں شریک ہیں اور دائیں بائیں کھڑے ہمارے پرستار، جھنڈے اور ہاتھ لہرا کر ریس جیتے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
چند برس پہلے جب یہ اعلان ہو کہ2022ء کا ’’فیفا ورلڈ کپ‘‘ قطر میں کھیلا جائے گا، تو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی، کیوں کہ فٹ بال کی دنیا میں قطر کی ٹیم اس قدر نمایاں نہیں تھی کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کرتی، لیکن کھیلوں کی دنیا کے اس قدر بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد کسی بھی ملک کے لیے بہرحال اعزازسے کسی طور کم نہیں۔ قطر کی فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعلان ہمارے لیے حیران کُن تھا، البتہ بعد میں اس کے اخراجات کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیل نے اس حیرانی کو ختم کردیا۔
فیفا ورلڈ کپ پرقطر نے اب تک سب سے زیادہ اخراجات اور عمدہ انتظامات کرکے دنیا کو دنگ کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق، قطر میں ہونے والے ’’فیفا ورلڈ کپ‘‘ پر تقریباً220 ارب امریکی ڈالرز کے اخراجات ہوئے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قطر نے 2022ء کے اس ورلڈ کپ کو یادگار بنانے کے لیے کس قدر محنت کی اور کتنے وسائل استعمال کیے۔ فیفا ورلڈ کپ کے لیے بنائے جانے والے اسٹیڈیمز کا چرچا بھی سوشل میڈیا پر خُوب رہا۔ ان میں سے ایک عارضی اسٹیڈیم، ’’اسٹیڈیم947‘‘کی تعمیر کے لیے 947کنٹینرز استعمال کیے گئے اور اس میں فیفا ورلڈ کپ کے دوران سات میچز کروائے گئے۔
اس اسٹیڈیم کو دیکھنے میں میری خاص دل چسپی تھی۔ مہارت کے ساتھ کنٹینرز کی مدد سے بنائے گئے چالیس ہزار تماشائیوں کی گنجائش رکھنے والے اس اسٹیڈیم کی تعمیر کے دوران ہی قطر نے اعلان کردیا تھا کہ ورلڈ کپ کے بعد اسے کسی اور ملک منتقل کردیا جائے گا، کیوں کہ قطر کے پاس جگہ کی کمی ہے۔
صحرا کی سیر سے لے کر شان دار فنِ تعمیر تک، اس شہر میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سیاحتی مقامات میں باربرا پریرا،ال کارنیشے،امام محمد ابن عبد الوہاب مسجد ، میوزیم آف اسلامک آرٹ کے علاوہ مصنوعی جزیرہ ’’دی پرل‘‘ بھی سیّاحوں کی توجّہ کا مرکز ہے، جہاں رہائشی ٹاورز، لگژری کشتیاں، دکانیں، ہوٹل اور ریستوران واقع ہیں۔ مسجد عبدالوہاب میں نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے ال کارنیشے کا رخ کیا، جو خلیج کو گھیرے میں لے کر سات کلو میٹر کی لمبائی تک چلتا ہے۔
اس کے تین اہم علاقے ہیں۔ کارنیشے پارک اور پرومینیڈ، کارنیشے اسٹریٹ اور گورنمنٹ زون۔ کارنیشے پارک چہل قدمی کرنے والوں، رنرز اور اسکیٹرز کا مَن پسند تفریحی مقام ہے، تو کارنیشے اسٹریٹ، دوحا کے اُبھرتے ہوئے ویسٹ بے بزنس ڈسٹرکٹ کو شہر کے جنوب اور دوحا انٹرنیشنل ائرپورٹ سے جوڑتی ہے۔ جب کہ گورنمنٹ زون میں ’’امیری دیوان‘‘ جیسی عمارات ہیں، جہاں سے خلیج کا خُوب صُورت نظارہ کچھ اور بھی حسین معلوم ہوتا ہے۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے، سورج کی آخری کرنوں کے ساتھ ہی ہم نے اپنی گھڑیوں پر نگاہ ڈالی، تو یہ سوچ کر کہ جانے کا وقت قریب آن پہنچا ہے، کچھ بے کلی محسوس ہوئی کہ چند روز ٹھہرنے کا بندوبست کرلیتے تو بہتر ہوتا، لیکن ہم نے اس خیال کے ساتھ کہ اللہ ربّ العزت کو منظور ہوا، تو پھر ضرور آئیں گے، ائرپورٹ کی راہ لی اور یوں ہماری دوحا کی مختصر، مگر خُوب صُورت سیّاحت اختتام کو پہنچی۔