• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت جہاں، لاہور

شہری قصبے میں اُن کا پرانے وقتوں کا بڑا سا گھر تھا۔ یکے بعد دیگرے والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی خاندانی روایات زندہ تھیں۔ بھائی، بہن مل جُل کر رہتے تھے۔ رسم و رواج کی پاس داری تھی۔ پھر نئی پود بڑھی، پھلی پھولی، کاندھوں تک آپہنچی۔ کسی نے قصبے کے رچے بسے ماحول کو تھامے رکھا اور کچھ بچے نئی دنیائوں کی کھوج میں قصبے سے نکل کر شہری بن گئے۔ اُن میں سے بھی کچھ سات سمندر پار نکل گئے۔ ہر ایک کی ترقی کا سفر نئے دن کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ غرض یہ ایک خوش حال خاندان تھا۔ بڑوں کے لبوں پر کُوچ کر جانے والے مسافروں کے تذکرے ہوتے اور دِلوں میں یادوں کی کسک۔

ایسے میں میاں عزیز احمد کے بیٹے، حماد عزیز کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ اُن کے گھر کی پہلی خوشی تھی۔ کافی عرصے بعد جھیل میں پتھر پڑا تھا، جس کا ارتعاش چاروں طرف پھیل گیا۔ خاندان بھر سے رشتے داروں کی آمد متوقع تھی بلکہ عزیز احمد بڑے چائو سے بہ نفسِ نفیس بُھولے بسروں اور رُوٹھوں کو منانے نکلے تھے۔ حویلی کی تزئین و آرائش اور بیاہ کے انتظامات نے چھوٹوں میں جیسے برقی رو دوڑا دی تھی، تو بڑوں میں بھی ایک نئی رُوح پھونک دی۔ 

زندگی کی یک سانیت سے پرے رنگا رنگی نے پھلجھڑیاں سی چھوڑ دیں۔ پژمردہ چہروں پر خوشی کی لالی اور بات، بے بات قہقہوں کی برسات ہونے لگی۔ پھر جنید عبادالرحمٰن کی آمد کی اطلاع نے تو سب کو نہال کردیا۔ مہتاب پھوپھو کی خوشی دیدنی تھی، تو میاں عبادالرحمٰن بھی خُود کو جوان محسوس کر رہے تھے۔ سالوں بعد نورِ نظر اور بہو، بچّوں سے ملنے کا چائو کم تو نہ تھا۔ باقاعدہ رسموں سے دو دن پہلے کی اُن کی فلائٹ تھی۔ اوریہاں ایک ایک دن گِن گِن کر گزر رہا تھا۔

مقررہ دن، عبادالرحمٰن نے صبح سویرے جنید کو فون کیا۔ ’’بیٹا! کس وقت کی فلائٹ ہے۔ ہم بروقت ایئر پورٹ پہنچ جائیں گے۔‘‘ اشتیاق، شوق، خوشی اُن کے لہجے سے عیاں تھے۔ مہتاب پھوپھو بھی ہمہ تن گوش تھیں۔ دُعائیں اُن کے لبوں پر جاری تھیں۔ جوانوں کا جمِ غفیر منتظر کہ کب حُکم ملتا ہے اور وہ ہار پھول لیے جنید بھائی اور بھابھی کو جلوس کی صُورت لے کر آئیں۔ دوسری طرف جنید نے نہ جانے کیا کہا کہ میاں عبادالرحمٰن گنگ کےگنگ رہ گئے۔ ’’لیکن کیوں بیٹا… یہ کیا بات ہوئی…؟؟‘‘ وہ دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے۔ ہشّاش بشّاش چہرہ یک دَم مُرجھا سا گیا تھا۔ ذرا دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا۔

’’کیا ہوا، سب خیر تو ہے؟‘‘ مہتاب پھوپھو لرزتے ہوئے بولیں۔ ’’سب ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے گہری سانس لی۔ ’’ہوا کیا ہے، بتائیں تو سہی، مجھے تو ہول اٹھ رہے ہیں، سب خیر ہے…؟؟‘‘ ’’پریشان کیوں ہوتی ہو…؟؟‘‘ وہ اُن پر ایک نظر ڈال کر گویا ہوئے۔

’’صاحب زادے نے فائیو اسٹار ہوٹل کی بکنگ کروا رکھی ہے۔ وہ ہوٹل میں ٹھہریں گے۔ ملازم اُن کے استقبال کو ایئر پورٹ پہنچ جائیں گے اور وہ لوگ شادی والے دن ہی ہمیں شرفِ باریابی بخشیں گے۔‘‘ ’’مگر…ہوٹل میں کیوں…؟؟‘‘

مہتاب پھوپھو پھر سرتاپا سوال تھیں۔ ’’اُن کا خیال ہے، ہوٹل میں اُنہیں زیادہ آرام ملے گا۔ بیوی، بچّے پریشان نہیں ہوں گے۔ ہمارے گھر کا ماحول بھی ڈسٹرب نہیں ہوگا اوران کی پرائیویسی بھی محفوظ رہے گی۔‘‘

’’ہم اپنے جگر گوشوں سے ڈسٹرب ہوں گے۔ اُن کی وجہ سے ہمارا ماحول خراب ہوگا اور ہماری وجہ سے ان کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔ خون کے رشتوں سے پرائیویسی… یہ ہے نیا دَور، یہ ہے تبدیلی، یہ ہے ترقی…‘‘ پھوپھو خودکلامی کرتے ہوئے رو رہی تھیں اور میاں عبادالرحمٰن کے پاس اُن کی تشفّی کے لیے دو بول بھی نہ تھے۔