• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں تُرکیہ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، جو حُکم ران جماعت، آق پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئے کہ بائیں بازو کی ری پبلیکن پیپلز پارٹی (CHP) نے1977ء کے بعد پہلی بار تاریخی فتح حاصل کی۔ آق پارٹی نے 2019ء کے مقامی انتخابات میں پورے تُرکیہ سے 44.33 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ2024ء کے انتخابات میں یہ شرح گر کر35.48 رہ گئی۔ 

آق پارٹی میں شکست وریخت کا یہ عمل2016 ء ہی سے شروع ہوگیا تھا، جس کا عملی مظاہرہ 2019ء کے بلدیاتی انتخابات میں دیکھا گیا کہ جب میٹرو پولیٹن شہروں کی میئر شپ اپوزیشن جماعت کے ہاتھ لگی، لیکن 2023ء کے صدارتی انتخاب میں رجب طیّب اردوان کی کام یابی نے اس کم زوری پر پردہ ڈال دیا۔

تاہم،31مارچ2024ء کے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعت استنبول، انقرہ اور ازمیر کی میئر شپ برقرار رکھنے میں کام یاب رہی، جب کہ آق پارٹی سے مزید 3میٹرو پولیٹن میونسپلٹیز اور7 صوبائی مرکزی میونسپلٹیز بھی چھین لیں۔ انتخابی نتائج کا جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آق پارٹی کی حمایت میں کمی کی وجہ معاشی بحران کے ساتھ پارٹی کے ذمّے داران میں تبدیلی اور مقامی سطح پر ووٹرز سے لاتعلقی ہے۔

حُکم ران جماعت کے بدلتے رویّے

حالیہ برسوں میں آق پارٹی کے مقامی تنظیم اور خدمت پر مبنی میونسپلزم کے انداز میں تبدیلی آئی، پارٹی اپنے ووٹرز سے دُور ہوئی، جس کی بنیادی وجہ پارٹی سیٹ اَپ میں کی گئی تبدیلیاں ہیں۔ عوامی رائے کے مطابق، ماضی میں آق پارٹی کی مقامی تنظیم بہت مضبوط تھی، لیکن حالیہ برسوں میں پارٹی کے اندر ایسے تمام افراد منظر سے ہٹا دئیے گئے، جو عوام دوست تھے اور اُن کی جگہ ایسے لوگوں نے لے لی، جو مفادات کی بنیاد پر پارٹی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ 

اگر ہم انقرہ اور استنبول کی گزشتہ5برسوں کی انتخابی مہمّات پر نظر ڈالیں، تو یہاں اپوزیشن کے اُمیدوار دیانت دار کے طور پر اُبھرے،جنھوں نے اسراف اور ناجائز منافع خوری روکنے کے ساتھ غربت کے خاتمے کے لیے کام کیا۔جب کہ حُکم ران پارٹی مقامی طور پر ووٹرز سے دُور ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اُن مسائل پر توجّہ ہی نہیں دے رہی، جن کے خلاف مقامی لوگ لڑ رہے ہیں، جیسا کہ منہگائی اور پنشنرز کا مسئلہ۔

اگلے 4برسوں میں کیا ہوسکتا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ تُرکیہ کو آنے والے دَور میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران کا درپیش ہوگا، یہی وجہ ہے کہ منہگائی کے خلاف جنگ اور پینشنز کی مَد میں اُٹھائے گئے اقدامات آق پارٹی کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اردوان کو معاشی خوش حالی کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف، آق پارٹی کے اندورنی نظام پر بھی نظرِثانی کی ضرورت ہے، جو اتنا ہی مشکل ہو سکتا ہے، جتنا کہ معیشت کی بحالی۔

انتخابات کے فوراً بعد سامنے آنے والے جائزوں میں کہا گیا کہ اے کے پارٹی کے وہ ووٹرز، جنہوں نے انتخابات میں حصّہ نہیں لیا، دراصل وہی اپوزیشن کی جیت کی بنیاد بنے۔ البتہ، بیلٹ باکس پر مبنی تجزیہ ایک مختلف تصویر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تاہم، اِس معاملے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والے تین اہم امور کا جائزہ لینا بہتر ہوگا۔

مئی2023ء کے انتخابات سے پہلے ایک اہم مفروضہ یہ تھا کہ خراب معاشی صُورتِ حال، اے کے پارٹی کے غیر مطمئن ووٹرز کو اپوزیشن اتحاد کی طرف لے جائے گی، جس میں دائیں بازو کی اور قدامت پسند جماعتیں بھی شامل ہیں، تاہم ایسا نہیں ہوا، جس کی سیاسی اور معاشی وجوہ ہیں۔

سیاسی وجہ تو یہ کہ اپوزیشن اتحاد سے آق پارٹی کے ووٹرز میں کوئی انتشار پیدا نہیں ہوا، جب کہ معاشی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے انتخابات سے پہلے مالیاتی معاملات نسبتاً بہتر بنانے میں کام یابی حاصل کی۔ کم از کم اجرت میں اضافے اور پینشن بڑھانے کے وعدوں سے حکومت کی ساکھ تو بہتر ہوئی، لیکن وہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے وعدوں اور اعلانات کی پورے طور پر تکمیل نہ کرپائی، جس سے عوام، بالخصوص ریٹائرڈ ملازمین میں مایوسی پھیلی۔

اصل ہدف 2028ءکے قومی انتخابات

نیو رفاہ پارٹی نے حالیہ انتخابات میں900 سے زاید اضلاع میں اُمیدوار کھڑے کیے، اِس طرح وہ اُمیدواروں کے لحاظ سے ٹاپ5 پارٹیز میں شامل ہوگئی۔ دوسری طرف، آق پارٹی اور MHP نے300سے زائد اضلاع میں امیدوار کھڑے کیے، جب کہ DEM پارٹی378 اضلاع میں اُمیدوار سامنے نہیں لائی، جہاں CHP کے اُمیدوار موجود تھے۔ گویا، اِن جماعتوں نے2028 ء کے قومی انتخابات کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے ہی اپنی سیاسی صف بندی کی اور یہ قومی سطح پر نظر آنے والے اتحاد سے بالکل مختلف تصویر ہے۔

اپوزیشن اتحاد کی جانب سے انتخابات میں بہت سی غلطیاں سامنے آئیں، جن سے یہ تاثر اُبھرا کہ وہ غیر منظّم طریقے سے کام کر رہا ہے۔ تاہم، اس نے غلطیوں کے باوجود عمومی طور پر انتخابی عمل منظّم طور پر ہی انجام دیا۔ جب ہم2023 ء کے انتخابات کا 2024ء کے انتخابات سے بیلٹ باکس کی بنیاد پر موازنہ کرتے ہیں، تو صاف نظر آتا ہے کہ مئی 2023 میں آق پارٹی کو ووٹ دینے والے تقریباً 30فی صد ووٹرز نے اِس بار اُسے ووٹ نہیں دیا، جب کہ اِس کے تقریباً2 ملین ووٹرز نے انتخابی عمل میں حصّہ ہی نہیں لیا،1.5 ملین نے CHP اور 1.4 ملین نے نیو رفاہ پارٹی کو ووٹ دیا۔

یوں ایسے 50 لاکھ ووٹرز، جنہوں نے2023 ء میں آق پارٹی کو ووٹ دیا تھا، اِس بار اُن کے ووٹس سے محروم رہی،جب کہ3 ملین نے دو دیگر جماعتوں کو ترجیح دی۔ یہ نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ آق پارٹی کے ووٹرز،جنہوں نے انتخابات میں حصّہ نہیں لیا، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن یہ وہ واحد عُنصر نہیں، جو اپوزیشن کی کام یابی کا سبب بنا۔1.4 ملین ووٹرزنے، جنہوں نے 2023 ء میں ووٹ نہیں دیا تھا، اِس الیکشن میں اپوزیشن کا انتخاب کیا۔واضح رہے، حالیہ انتخابات میں رائے دہندگان کا ایک بڑا اور اہم حصّہ اُن نوجوانوں پر مشتمل تھا، جنھوں نے پہلی بار ووٹ ڈالا۔ 

تجزیے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ 2023 ء کے انتخابات میں MHP اور YSP کو ووٹ دینے والے ووٹرز کی بھی بڑی تعداد پولنگ اسٹیشنز نہیں گئی۔قصّہ مختصر، اپوزیشن کی جیت کا اصل محرّک آق پارٹی کے ووٹرز کا انتخابات سے دُور رہنا ہے۔نیز، اپوزیشن نئے ووٹرز کو بھی اپنی جانب مائل کرنے میں کام یاب رہی۔ اپوزیشن جماعت CHP بلدیاتی خدمات کے ذریعے ووٹرز کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوششوں میں ہے اور اگر ووٹرز اُس کی جانب متوجّہ ہوگئے، تو یہ جماعت2028 ء کے قومی انتخابات بھی اپنے حق میں کر سکتی ہے۔

احتسابی عمل کا آغاز

بلدیاتی الیکشن میں بُری طرح ناکامی پر حُکم ران، آق پارٹی میں احتساب کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ شکست کی وجوہ کے تعیّن کے لیے صدر اردوان کی صدارت میں سینٹرل ایگزیکٹیو بورڈ (MYK) کا اجلاس طلب کیا گیا اور اِس اجلاس میں صدر اردوان نے’’ تکبّر کی بیماری‘‘ کی طرف توجّہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ’’ ہمیں ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے، جو صوبائی، ضلعی اور ٹاؤن تنظیموں، ہمارے میئرز، ہمارے ایم پیز اور یہاں تک کہ بیوروکریسی تک میں پھیلا ہوا ہے۔ 

قوم کے سینوں سے جنم لینے والی سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی دشمن اُن کے اور شہریوں کے درمیان کھڑی دیواریں ہوتی ہیں۔ہم اپنی قوم کو دِکھائیں گے کہ اِس پارٹی میں کوئی بھی شخص، خواہ اُس کا کوئی بھی مقام ہو، معمولی نہیں ہے۔‘‘

اِس موقعے پر بعض حکومتی ارکان نے غیر مُلکی قوّتوں کی جانب بھی اشارہ کیا، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اردوان نے زیادہ حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر کا اظہار کیا، جس کا خلاصہ یہ ہے۔٭ منہگائی میں اضافہ ٭ریٹائرڈ ملازمین کی شکایات ٭ اسرائیل کے ساتھ تجارت پر تنقید (وہ غزہ معاملے کی وضاحت نہیں کر سکے)٭ پارٹی میں تکبّر کی بیماری اور ٭ایم ایچ پی کے ساتھ انتخابی دوڑ۔اردوان نے کہا کہ اپوزیشن جماعت، سی ایچ پی نے اِس آخری وجہ کے باعث اماسیا، Kütahya اور Kırı کو ہم سے لے لیا۔ 

اُنھوں یہ بھی کہا کہ’’ میرا کوئی دوست، بشمول مَیں، 31 مارچ کی ذمّے داری سے نہیں بچ سکتا،ہم کسی اور کی بجائے خُود پر الزام لیں گے۔‘‘اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آق پارٹی کے عُہدے داروں میں کافی تبدیلیاں متوقّع ہیں۔اِس اجلاس میں معاشی بحران، غلط اُمیدواروں کے انتخاب اور ریٹائرڈ افراد کی ناراضی کو شکست کے اہم اسباب بتایا گیا۔پارٹی ارکان کا کہنا ہے کہ ووٹرز نے الیکشن سے ہفتہ، دس دن پہلے اپنا رویّہ تبدیل کر لیا،کیوں کہ 15 ملین پینشنرز کی توقّعات پوری نہیں ہوئیں۔

پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے یہ اُمید دلائی تھی کہ صدر اردوان انقرہ اور استنبول کی ریلیوں میں پینشن میں اضافے کی خوش خبری سنائیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اِس پر ریٹائرڈ ملازمین ووٹ ڈالنے نہیں گئے یا اپنا ووٹ ضایع کردیا یا پھر ردّ ِعمل کے طور پر کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دے دیا۔ایک پینشنر کے بقول’’ مَیں آق پارٹی کو ووٹ کے ذریعے جتنی سزا دے سکتا تھا، دے دی، کیوں کہ اب ان میں جیت کی طاقت کا زہر ہے۔‘‘آق پارٹی کے مطابق، کم از کم60 فی صد ووٹرز نے پولنگ کے عمل میں حصّہ نہیں لیا۔ 

چوں کہ وہ حُکم ران پارٹی کے رُکن تھے، اِس لیے اُنھوں نے کسی دوسری پارٹی کو بھی ووٹ نہیں دیا۔ذرائع کے مطابق،8 ملین ووٹرز نے ووٹ نہیں ڈالے۔آق پارٹی کے اکثر ووٹرز غریب ہیں یا لوئر مِڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ منہگائی سے شدید پریشان ہیں۔عوامی رائے کے مطابق حُکم ران جماعت کو سڑکوں، پُلوں اور دفاعی صنعت جیسے بڑے منصوبوں پر سب سے زیادہ فخر تھا۔

انتخابی نتائج کے بعد پارٹی کے کچھ ذمّے داران نے کہا کہ’’معاشی بحران سے افسردہ ووٹرز کے لیے میکرو سروسز کی کوئی اہمیت نہیں۔یعنی شہریوں کی جیبوں میں کچھ جانا چاہیے، آپ سڑکیں اور سرنگیں بنا رہے ہیں، لیکن پیٹرول کی قیمت قابو سے باہر ہے، جب کہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔‘‘ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حُکم ران جماعت کو غلط اُمیدواروں اور غلط اتحاد کے باعث شکست ہوئی۔

غزہ کی صُورتِ حال کے اثرات

بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے حُکم ران جماعت کی ناکامی کو غزہ کی صُورتِ حال سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔یاد رہے، انتخابات کے دوران تُرکیہ کے اسرائیل سے تجارت منقطع نہ کرنے کے ایشو کے ساتھ اسرائیل کو اسلحہ فراہمی کا جھوٹا پراپیگنڈا بھی زوروں پر رہا۔ 

کہا جا رہا ہے کہ تُرک عوام نے ووٹ کی صُورت حکومتی پالیسی پر شدید ردّعمل دیا ہے۔ویسے تُرکیہ، فلسطین کی بڑے پیمانے پر مدد کرنے والا دوسرا بڑا مُلک ہے اور ایمبولینس سروس میں مدد دینے والا پہلا بڑا مُلک۔پھر اپوزیشن جماعتوں نے پراپیگنڈے کو بڑھاوا دیا اور چند فی صد ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔

نئے آئین کے لیے دَم توڑتی اُمیدیں

حکومتی انتظامیہ کے مطابق شکست کی وجوہ چند نہیں بلکہ متعدّد ہیں، جو علاقائی، صوبائی اور اضلاع کے حالات پر مشتمل ہیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب اردوان کے سامنے ایک نہیں، دو مضبوط حریف ہیں، جو انہیں ایوانِ صدر میں شکست دے سکتے ہیں۔ استنبول میں اکرم امام اولو اور انقرہ میں منصور یاواش۔

یہ دونوں تُرکیہ کے اہم سیاسی رہنماؤں کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے استنبول کی میئرشپ جیتنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اردوان کی سیاسی زندگی2028 ء سے پہلے بھی ختم ہو سکتی ہے۔تاہم، یہ بھی یاد رہے کہ آق پارٹی نے شکست کے باوجود پورے تُرکیہ میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا ہے، جب کہ اردوان کو نچلی سطح پر بھی کافی حمایت حاصل ہے، اِس لیے اُنھیں اپنی جماعت اور ارکانِ اسمبلی کی جانب سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں اُن کے اختیارات، طاقت اور گرفت برقرار رہے گی۔ 

یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر اردوان 2028 ء یا اس سے پہلے صدارتی عُہدے سے محروم ہو جاتے ہیں، تو آق پارٹی کے ووٹس میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔ جہاں ایک طرف، اردوان سخت معاشی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ معیشت بہتر ہوسکے، تو دوسری طرف، اُنہیں اور آق پارٹی کو کوئی ایسا جادوئی فارمولا تلاش کرنا چاہیے، جو سیاسی منظر نامے میں اُن کی موجودگی، وزن برقرار رکھے اور 2028ء کے قومی انتخابات سے پہلے سب کو اس کا ادراک بھی ہو جائے۔ 

بلدیاتی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ اپوزیشن CHP، اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود، سنبھل رہی ہے۔اردوان نے بلدیاتی انتخابات کے بعد ایک’’ نیا اور سویلین آئین‘‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا، جس سے اُن کے دوبارہ صدارتی اُمیدوار بننے کی بھی راہ ہم وار ہوتی، تاہم حالیہ انتخابی شکست کے بعد ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اگر ایسی کوئی کوشش تُرکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی سے منظور ہو بھی جاتی ہے، تب بھی عوام اُسے قبول نہیں کریں گے۔

اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کی بہتری

بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا سبق یہ ہے کہ مُلک کے حقیقی مسائل تسلیم کیے جائیں اور اُن کے حل کے لیے مخالفین سے سمجھوتا کیا جائے۔اپوزیشن کے بیانیے کے مطابق حُکم رانوں کا قانون کی پابندی سے استثنا، ریاستی و معاشی عدم استحکام، عدلیہ، مرکزی بینک اور شماریات جیسے اسٹریٹجک اداروں کی آزادی کا خاتمہ اہم مُلکی مسائل ہیں۔

حکومت کے ناقص فیصلے سرکاری دفاتر میں بدعنوانی، رشوت ستانی، نااہلی، اقربا پروری، عوام کی روزمرّہ زندگی میں منہگائی، بنیادی حقوق اور آزادیوں پر پابندی کی صُورت ظاہر ہو رہے ہیں۔اب ضروری ہوگیا ہے کہ اردوان، حزبِ اختلاف سے، جس نے بلدیاتی انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کی، حالاں کہ اسے "غیر موجود" سمجھا جاتا تھا، ایک برابر یا مضبوط حریف کے طور پر معاملات طے کرے۔

اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو اُنھیں مستقبل میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جنہیں وہ اکیلے حل نہیں کر سکتے اور اُنہیں آگے چل کر بلدیاتی انتخابات سے بھی زیادہ سخت شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جس پر اردوان کو اپوزیشن سے اتفاق کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے عدلیہ کی آزادی۔HSK کو وزارتِ انصاف کے اختیارات کے ساتھ ایک نیا ڈھانچا دیا جائے۔

دوسرا اہم مسئلہ ایگزیکٹیو پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات کی بحالی کا ہے۔نیز، اِس معاملے میں توازن کی بے حد ضرورت ہے۔ موجودہ عجیب و غریب صُورتِ حال کا،جس میں پارلیمنٹ پر ایک فرد کی حُکم رانی ہے، خاتمہ ضروری ہے۔اگر اردوان اِن دومعاملات پر حزبِ اختلاف سے کوئی سمجھوتا کرتے ہیں، تو یہ اُن کا تُرکیہ پر ایک بڑا احسان ہوگا۔