• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے لیے اِس وقت دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چُکا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں پڑوسی مُلک، افغانستان میں پناہ لینے والے جنگ جُو گروپس کی طرف سے ہو رہی ہیں، جن میں پاکستان کی سیکیوریٹی فورسز، عام شہریوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کو برداشت نہیں کرے گا۔ دہشت گردی کا ایک بڑا، تازہ ترین واقعہ مارچ کے وسط میں ہوا، جس پر پاکستان کو جوابی کارروائی بھی کرنی پڑی۔پاکستان نے پیر، 17 مارچ کی صبح اپنی سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جینس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی۔

بتایا گیا کہ اس آپریشن کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے، جو پاکستان میں کیے جانے والے متعدّد حملوں میں ملوّث ہیں، جن میں سیکڑوں عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار شہید ہوئے۔ ترجمان، دفترِ خارجہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ’’16مارچ کو شمالی وزیرستان میں میر علی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا، جس میں سات پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔پاکستان گزشتہ دو برسوں سے افغان عبوری حکومت کو ٹی ٹی پی کی موجودگی پر مسلسل اپنے تحفّظات سے آگاہ کرتا چلا آ رہا ہے اور افغان حکومت کو بتایا گیا کہ یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ 

یہ دہشت گرد افغان سرزمین کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ’’ پاکستان، افغانستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو بہت اہمیت دیتا ہے، اِسی لیے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ مذاکرات اور تعاون کو ترجیح دی ہے۔‘‘اِسی بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ’’ ہم نے بار بار افغان حکّام سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف عدم استعمال کو یقینی بنائیں اور وہاں دہشت گردوں کو اپنے پیر نہ جمانے دیں۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے اپنی سرزمین سے ختم کرکے اِس گروہ کے ارکان پاکستان کے حوالے کیے جائیں۔پاکستان، افغان عوام کی بہت عزّت کرتا ہے، تاہم اِس وقت وہاں کی عبوری حکومت میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں، جو ٹی ٹی پی کی پُشت پناہی کر رہے ہیں اور اِسے پاکستان کے خلاف آلۂ کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ’’ہم اقتدار میں موجود ایسے عناصر کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اُن افراد کا ساتھ دینے کی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں، جن کے ہاتھ معصوم پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور واضح طور پر پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کریں۔‘‘اِس بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ’’ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان، دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کسی مشترکہ حل کی تلاش کے لیے کوشاں ہے اور یہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو روکنے کی حمایت کرے گا، جو افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں خرابی کا باعث بنے۔‘‘ جواباً18 مارچ کی صبح افغان حکومت نے کہا کہ’’ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بم باری کی ہے۔‘‘افغان وزارتِ دفاع نے یہ بھی بتایا کہ’’ عبوری افغان حکومت کی فورسز نے سرحد پار پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔‘‘اِس سے متعلق پاکستانی بیان میں بتایا گیا کہ کچھ سیکیوریٹی اہل کار زخمی ہوئے اور پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے حملہ آوروں کو خاموش کردیا۔

پاکستان اور افغانستان کی عبوری حکومت کے درمیان اِس قسم کی جھڑپیں پہلی بار ہوئی ہیں اور نہ ہی پاکستان نے طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے متعلق اپنے تحفّظات سے پہلی بار آگاہ کیا۔پھر یہ کہ پاکستان وہ واحد مُلک نہیں، جو افغان سرزمین پر جنگ جُو تنظیموں کے قیام اور اُن کی کارروائیوں پر تشویش رکھتا ہے۔ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کو بھی داعش، کالعدم تحریکِ طالبان اور القاعد جیسی تنظیموں پر پاکستان ہی کے طرح کے تحفّظات ہیں۔ان ممالک میں چین، روس، ایران اور وسط ایشیا کے مسلم مُلک شامل ہیں۔ صُورتِ حال پر غور کے لیے اجلاس بھی ہوتے رہتے ہیں، جن میں افغان حکومت بھی موجود ہوتی ہے۔ 

گزشتہ ستمبر میں ایسے ہی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئی اہم امور پر فیصلے بھی ہوئے۔پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے ایک ہفتے بعد روس میں دہشت گردی کی ایک واردات میں تقریباً150 افراد ہلاک ہوئے۔یہ واقعہ ایک کنسرٹ کے دوران ہوا۔ دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے پوائنٹ بلینک رینج پر لوگوں کو مارا، فائرنگ سے آگ لگی اور ہال کی چھت گر گئی، جس سے مزید ہلاکتیں ہوئیں۔ داعش نے اس حملے کی ذمّے داری قبول کرتے ہوئے دہشت گردوں کی کارروائی سے متعلق ایک ویڈیو بھی جاری کی۔روس اس معاملے کو یوکرین کے سر ڈال رہا ہے، جب کہ یوکرین کے صدر اِس واقعے میں ملوّث ہونے سے انکاری ہیں۔

یہ روس اور یوکرین کا معاملہ ہے، مگر داعش کا اِس طرح کی دہشت گردی کی ذمّے داری قبول کرنے کے کیا معنی ہیں، اِس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یاد رہے، شام کی خانہ جنگی کے آخری سالوں میں روس نے بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مل کر شامی شہروں پر بدترین بم باری کی تھی۔ روس کا کہنا تھا کہ یہ داعش کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہے، جب کہ اس میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے۔اُس وقت داعش کا شام کے بڑے علاقے پر قبضہ تھا، جسے اُس نے بشار کی فوجوں کو شکست دے کر حاصل کیا تھا۔ روس، امریکا اور ایران نے مِل کر اسے فوجی کارروائیوں کے ذریعے ختم تو کردیا، لیکن روس کا شام میں پھر بھی مرکزی کردار رہا۔

بہرکیف، حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر افغان عبوری حکومت کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے، وہ ابھی تک مسلّح گروہوں کے خلاف کسی سنجیدہ اور قابلِ ذکر کارروائی سے اپنے پڑوسیوں، خاص طور پر پاکستان کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ان تنظیموں کو افغان حکومت کے اندر موجود عناصر سے مدد ملتی ہے، اِسی لیے مذمّتی بیانات اور کارروائی کی یقین دہانیاں تو آجاتی ہیں، لیکن حقیقت میں کچھ ہو نہیں پاتا۔دہشت گردی کے تازہ واقعات میں بھی ایک افسوس ناک بات یہ رہی کہ افغان حکومت نے پاکستان کی بات سُننے کی بجائے مسلّح گروپ کی مدد کرتے ہوئے سرحد پر فوجی کارروائی کی، جس کا اُسے منہ توڑ جواب ملا۔

عجیب ہی نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ اور شرم ناک بات یہ ہے کہ یہ سب اُس پڑوسی، برادر مُلک کے خلاف کیا جا رہا ہے، جس نے افغانستان کی دہائیوں مدد کی، جہاں امریکی فوجیوں کی واپسی پر جشن منائے گئے، جہاں طالبان کی فتح کو سابق وزیرِ اعظم، عمران خان نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے مترادف قرار دیا۔ اب وہی مُلک افغان سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بنا ہوا ہے۔ وہ کون سا الزام ہے، جو پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے پر نہیں لگا۔روس آج تک پہلی افغان وار میں ہمارے کردار سے خوش نہیں۔امریکا نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ پاکستان کو افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

امریکا کو خطّے میں دہشت گردی کا ذمّے دار ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن کیا یہ بات بُھلائی جاسکتی ہے کہ اصل مصیبت تو اُس وقت شروع ہوئی تھی، جب سوویت یونین نے سردار دائود کے زمانے میں افغانستان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا اور پھر پہلی افغان جنگ شروع ہوگئی۔اُسی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آنے پر مجبور ہوئے، جن میں سے تیس لاکھ اب بھی یہاں موجود ہیں اور جب بھی اُن کی واپسی کی بات کی جائے، تو بھائی چارے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ سوویت حملے کے بعد سے کلاشنکوف، ہیروئن کلچر کا سیلاب آیا اور پھر دہشت گردی کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ہم نے افغان شہریوں کو اپنا بھائی مان کر اپنے ہاں پناہ دی۔اُنھیں اپنے نوالوں میں شریک کیا، اپنے روزگار کا حصّے دار بنایا۔ 

خیبر سے کراچی تک اُن کے لیے کھول دیا۔وہ بوجھ، جو کوئی بڑے سے بڑا مُلک برداشت کرنے کو تیار نہ تھا، وہ ہم نے اُٹھایا، حالاں کہ اِس جنگ سے چند ہی سال قبل ہم پر قیامت ٹوٹ چکی تھی، جب مشرقی بازو ہم سے الگ ہوا۔ پھر جب افغان طالبان امریکا کے خلاف برسرِپیکار تھے، تو اُنھیں یہاں سے مدد ملتی رہی۔ اب اِن تمام احسانات کا بدلہ پاکستان دشمن تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرکے دیا جا رہا ہے اور یہ گروہ، وہاں سے آکر ہمارے بے گناہ عوام اور سیکیوریٹی اہل کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ دیکھ کر مزید دُکھ ہوتا ہے کہ افغان حکومت اُنہیں روکنے کی بجائے، سپورٹ کرتی ہے۔

افغان طالبان نے دوحا مذاکرات میں جس معاہدے پر دست خط کیے، اُس میں اُنھوں نے دنیا کو یقین دہانی کروائی تھی کہ افغان سرزمین کسی بھی مُلک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور یہ کہ وہاں خواتین کے حقوق کا تحفّظ کیا جائے گا، خاص طور پر تعلیم اور ملازمت کے معاملات میں۔اِن میں سے ایک بھی بات پوری نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ دوسال گزرنے کے باوجود کوئی مُلک افغان عبوری حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ان میں او آئی سی میں شامل58 اسلامی ممالک بھی شامل ہیں اور چین، روس جیسی علاقائی طاقتیں بھی، جو امریکا کی سخت مخالف ہیں۔ 

افغان طالبان، دوحا معاہدے کے وقت بار بار اعلان کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر افغان معیشت پر خصوصی توجّہ دیں گے، مگر آج افغانستان کی معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے، جی ڈی پی سکڑ کر تقریباً30فی صد رہ گئی ہے۔ایک عالمی اندازے کے مطابق، وہاں ہزاروں ملازمتیں ختم ہوچُکی ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کے امریکا نے اپنے فوجی انخلا کے بعد عطیات دینا بند کر دیئے ہیں۔70 فی صد لوگوں کو مناسب خوارک نہیں مل رہی۔شرائط پوری نہ کرنے پر امریکا اور دیگر ممالک نے افغان عبوری حکومت پر پابندیاں عاید کر دی ہیں۔ 

اقوامِ متحدہ کے مطابق پونے چارکروڑ کی آبادی میں سے90 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان کے وہ تجزیہ کار، جو پاکستان اور افغانستان میں ڈالر ریٹ کا موازنہ کر کے بتاتے رہتے ہیں کہ افغان حکومت کیا معاشی کارنامے سر انجام دے رہی ہے، درحقیقت وہ پاکستان میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔افغانستان ایک خود مختار مُلک ہے، وہاں کی حکومت کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اُس کے لیے معیشت کی مضبوطی اوّلیت رکھتی ہے یا دہشت گرد تنظیموں کی میزبانی، جو خود اُن کے لیے اور پڑوسیوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔

دیگر مسلم ممالک میں بھی جنگ جُو تنظیموں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ شام، عراق، لبنان، یمن، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ وغیرہ میں بہت سی مسلّح تنظیمیں سرگرم ہیں، جنہیں مغرب اور اقوامِ متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ یہی تنظیمیں ہیں، کیوں کہ ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور یہ حکومتوں کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کرتی ہیں۔ان میں سے بہت سی تنظیموں کو مختلف حکومتیں اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی بقا کے لیے ہتھیار اور سرمایہ کہاں سے اور کیسے ملتا ہے؟ یہ تنظیمیں گویا بوتل کے جن کی طرح ہیں کہ ایک بار باہر نکل جائیں، تو دوبارہ بوتل میں بند کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

چوں کہ اِنہیں سپورٹ کرنے والے مسلم ممالک اپنے معاشی معاملات میں دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، اِس لیے یہ ایک حد تک ہی ان کی سرپرستی کرتے ہیں، پھر یہ گروہ اُن پر بار بن جاتے ہیں۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں، خود پاکستان اس طرح کے نتائج بھگت رہا ہے۔اِسی لیے اب ریاست کی پالیسی یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد گروپ کو قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ اِس کی کیسی ہی قیمت کیوں نہ چُکانی پڑے۔

پاکستان اِس وقت جس پالیسی پر گام زن ہے، اُس میں تمام تر توجّہ معیشت پر ہے۔ اِس کی اوّلین ترجیح یہی ہے کہ جلد ازجلد معیشت بحال ہو اور مُلک ترقّی کے راستے پر گام زن ہو جائے۔اِس پالیسی میں کسی ملیشیا کی سرپرستی کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی پڑوسی مُلک سے تصادم کی۔ اِسی لیے اسلام آبا د چاہتا ہے کہ کابل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تمام معاملات طے کر لیے جائیں اور بظاہر اِس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں کہ افغان حکومت سے اس کے ہر سطح پر تعلقات ہیں۔ 

افغان حکومت کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں پناہ گزین رہی یا یہاں کی میزبانی سے لُطف اندوز ہوتی رہی ہے، اِس لیے بات چیت میں کوئی مشکل نہیں۔ عالمی طاقتوں میں چین سب سے زیادہ طالبان حکومت کے قریب ہے اور وہ پہلا مُلک ہے، جو تیل اور معدنیات کے شعبوں میں وہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔چین سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینا چاہتا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے کہ اِس سے وہاں ترقّی کی راہیں کُھلیں گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وہ مستقل فوجی جدوجہد کی کیفیت سے نکل کر ایک سِول حکومت کی شکل میں آئیں گے، جو کسی بھی حکومت کا اپنے عوام کے لیے ایک بہتر رُوپ ہے۔ چین اور طالبان کو قریب لانے میں پاکستان کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔

اِسی طرح پاکستان نے طالبان تک امداد پہنچانے کے لیے بھارت سے تجارتی اور امدادی راہ داری فراہم کی، حالاں کہ وہ خود ابھی تک بھارت سے تجارت نہیں کر رہا۔اب اِس سے زیادہ کسی مُلک سے کوئی دوسرا مُلک کیا اُمید کرسکتا ہے۔افغانستان کی معیشت تباہ حال ہے، جب کہ پاکستان اپنی معیشت بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے، ایسے میں کوئی بڑا فوجی تصادم دونوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ تمام مسائل بات چیت ہی سے حل کیے جائیں، جس کے لیے افغان حکومت کو اپنی ذمّے داری محسوس کرنی چاہیے۔