کسی بھی جمہوری سماج میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ اپنے اپنے اداروں کی روایات کی پاسداری کرتی ہیں اور ایسا کرنے کیلئے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئےبھی تیار رہتی ہیں۔لیکن اس کے برعکس بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان ایک پسماندہ معاشرہ ہے اور یہ کہ پسماندگی کی کوئی بھی مدت نہیں ہوتی۔اس پسماندگی کو صرف اور صرف مختلف اداروں کے در میان ہم آہنگی پیدا کرکے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب معاشرے میں صاحب اقتدار اور بعض مراعات یافتہ طاقتور طبقات ہوتے ہیں، ادارہ سازی کسی صورت جن کے وارے میں نہیں ہوتی ۔لہٰذا انکی خواہش ہوتی ہے کہ پسماندگی اپنی جڑیں اور زیادہ گہری کرتی چلی جائے۔یوں اس ادارہ سازی کی کشمکش کے نتیجے میں کچھ معاشرے ارتقاء پذیر ہوکر ریاست اور عوام کے درمیان رشتہ پیدا کرتے ہیں اورترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں اور کچھ پسماندگی کا شکار ہوکر ناکامی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
پاکستان میں عدلیہ کی طاقت کا منبع آئین اور قانون ہیں ، اور انکی تشریحات کے تمام معاملات عدلیہ کی تشریح سے وابستہ ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں تنازعات کے حل کا ایسا ہی فریم ورک ہوتا ہے۔ لیکن اتنے زیادہ انتظامی اور اداراتی اختیارات رکھنے کے باوجودکیا وجہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ، انتظامیہ سے نہ صرف مغلوب نظر آتی ہے بلکہ اسکے اختیارات بہت حدتک صرف کاغذی اختیارات بن کر رہ گئے ہیں۔حالانکہ آئین کے آرٹیکل204میں یہ واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی صورت میں وہ کسی بھی شخص پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا سکتی ہے اور سزا بھی دے سکتی ہے۔لیکن دوسری طرف عدلیہ اپنے تحفظ کیلئے بھی انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرتی ہے۔ اس سلسلے میںجسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو کے مقدمے میں ججوں پر دبائو کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کو بھی نوکریاں عزیز ہوتی ہیں اور سب جج اتنے بہادر نہیں ہوتے کہ اپنی نوکریوں کو دائو پر لگا دیں۔دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے اداروں کی تربیت ،حب الوطنی کے ضمن میں اتنی سر شاری سے کی جاتی ہے کہ ان اداروں کی تکریم دوسرے اداروں کے مقابلے میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر لیتی ہے۔ اسلام آباد کے چھ ججوں کے اس خط نے عدلیہ کو ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ججوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں اپنی نوکریاں عزیز ہیں یا وہ عدلیہ کو مقننہ ، انتظامیہ اور ایجنسیوں کے سامنے آئین اور قانون کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اگر ایسا ہوگیا تو سیاسی پارٹیاں اور عوامی ادارے ریاست پر غالب آ جائیں گے اور کوئی ادارہ غیر جمہوری یا آمرانہ طرز عمل کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکے گا۔اس خط نے دراصل ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جنہوں نے بھٹو کو پھانسی کی سزادلوائی، بے نظیر ، نوازشریف اور عمران خان کو اقتدار سے محروم کیا بلکہ سزائیں بھی دلوائیں۔اس خط میںانہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے ایجنسیوں کی دخل اندازی پر رہنمائی مانگی ہے اور کہا ہے کہ کیا ہم انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر ان معاملات سے نبٹ سکتے ہیںکیونکہ ججوں سے متعلق ضابطہ اخلاق اس معاملے میں انہیںکوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔اس خط میں ججوں نے اپنے چیف جسٹس کے خلاف بھی شکایت کی ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملے میں کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی۔اس خط میں انہوں نےان واقعات کا حوالہ بھی دیا ہے جس میںایجنسیوں نے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ اس خط میںانہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ تمام سینئر ججوں کا کنونشن بلا کر اس معاملے پر بحث کی جائے اور پھر اسکی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ فیصلہ دے۔
اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ دنوں تک کوئی واضح صورتحال سامنے نہ آسکی لیکن بالآخر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184(3)کے تحت سوموٹو ایکشن لیا اور اب امید کی جاتی ہے کہ 29اپریل کو فل کورٹ اس اہم کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایسا فریم ورک وضع کرے گا کہ ایجنسیاں عدلیہ پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔
اس سے پہلے اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اس اہم معاملے کو کمیشن کے سپر د کرکے ماضی کی طرح ڈمپ کر دیا جائے گا۔سونے پر سہاگہ کہ ایجنسیوں کی مداخلت پر تفتیش کیلئے انتظامیہ کو کہا گیا کہ وہ کمیشن مقرر کرے حالانکہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انتظامیہ کے پاس توایجنسیوں کی مداخلت کے دفاع میں کوئی نہ کوئی توجیہ موجود ہوتی ہے۔اسی لیے جب یہ خط کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے یک زبان ہو کربغیر کسی تفتیش کے ججوں کے الزامات کی سختی سے تردید کردی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں جمہوری اقدار اور روایات کو فروغ دینے والا سماج قائم کیا جائے اور ایسے ادارے بنائے جائیں جو تحمل ، برداشت، مساوات جیسی جمہوری اقدار کو پروان چڑھائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے عدلیہ کو وہ ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے جسکو بنیاد بنا کر وہ عدلیہ خود کو مقننہ ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے آزاد کروا سکتی ہے اور بے باکی سے فیصلہ کرکے اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی ارتقاء کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔اگر سپریم کورٹ نے ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف کوئی فریم ورک واضح کر دیاتو تمام سیاسی پارٹیوں اور بار کونسلزکو چاہیے کہ وہ اس فیصلوں پر عمل داری کو یقینی بنائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)