• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف لڑائی لازمی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد عناصر اپنا سیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں جو وہ ہم پر مسلط کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں اور میری حکومت ان کو اس بات کی اجازت ہر گز نہیں دے گی۔

ادھر بھارتی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پہلے دہشت گردی اور بھارت مخالف سرگرمیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے پھر دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک موجود ہے جو بھارت میں سرگرمیوں میں مصروف ہے ان عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ایمسٹرڈم میں بیٹھا دونوں ملکوں میں جنم لینے والی پائیدار دوستی کا منتظر ہوں کہ جو گزر گیا وہ خواب تھا اور جو باقی ہے وہ آرزو ہے۔

پاکستان میں امن و امان کا جو عالم ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے جو اقدامات کرنے کا اعلان بھارت نے کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ برصغیر میں حقیقی امن اور سلامتی کا دور دورہ ہو۔ یہی بات آصف زرداری نے اپنے مفہوم میں کہی ہے کہ وہ شخص بھی بنیادی طور پر پاک بھارت میں دوستی امن اور بھائی چارے کیلئے شہرت رکھتا ہے۔ صدر آصف زرداری بنیادی طور پر مثبت سوچ کے حامل شخص ہیں اور میں یہ بات پوری دیانت داری سے قبول کرتا ہوں کہ ان کا دہشت گردوں کے بارے میں تجزیہ سو فیصد درست ہے۔

ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں تشدد، جارحیت اور آمریت کے طریقوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اگر حل ہوابھی ہے تو وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت یہ محسوس کر رہی ہے کہ ساٹھ سال سے مسلسل ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور سردگرم جنگ سے نہ توبھارت کو کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہی پاکستان کو اس بے مقصد محاذ آرائی سے کچھ فائدہ پہنچ سکا ہے۔

میرے حساب سے پاکستانی معاشرہ بھی ہندوستانی معاشرہ کی طرح اعتدال پسند اور مذہبی رواداری کا پیروکار ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ تقسیم کے بعد بھارت میں اعتدال پسندی، جمہوریت، رواداری اور سیکولرازم کی روایات کو قانونی شکل مل جانے سے وہاں کا معاشرہ پاکستانی معاشرے سے زیادہ سیکولر بن گیا ۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دونوں ملکوں کی مٹی میں صوفیوں اور درویشوں کا زبردست اثر و رسوخ رہا ہے آج نہیں تو کل یہاں انتہا پسندی کو ایک دن مرنا ہی ہے۔ گملوں میں لگایا گیا انتہا پسندی کا پودا کبھی تنا ور درخت نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کی جڑیں زمین میں نہ ہوں۔ یہ انتہا پسندی مذہبی ہو یا سماجی ہر گز قابل قبول نہیں۔ وہ لوگ جو سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے تشدد یا دہشت برپا کرتے ہیں اور آبادیوں کو نشانہ بناتے ہیں وہ سراسر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے عناصر کی زندگی کے ہر شعبے ہر طبقے اور ہر گوشے سے مذمت کی جانی چاہیے کہ سیاست اور تشدد کا آپس میں کوئی میل جول نہیں ،کوئی علاقہ نہیں۔

بہت سے بالغ نما نا بالغ یہ سمجھتے ہیں (جن میں میرے کالم نگار دوست بھی شامل ہیں) کہ مذہب کے اصولوں کی حفاظت تشدد ہی سے ہو سکتی ہے۔ یہ خیال سرےسے ہی غلط ہے دوسرے لوگ جس طرح سوچتے ہیں اس میں بھی صداقت ہو سکتی ہے ۔ آپ کی ساری گفتگو صحیح نہیں ہو سکتی اور دوسرے کی ساری گفتگو غلط نہیں ہو سکتی یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ گفت کم کرتے ہیں اور ’’گو‘‘ زیادہ۔

میری جنتری میں انتہا پسندی مرض نہیں علامت ہے۔ مرض تو ہے اپنے سوچنے کے ڈھنگ کو حرف آخر سمجھنا۔ اور دوسروں پر اپنا نقطۂ نظر یا نظریہ تھوپنا۔ آج پاکستان میں بعض مذہبی افرادنے فلسفہ ٔ جہاد کی اصطلاح اپنے مفادات کے مدنظر بدل دی ہے اور لفظ جہاد کی تاویل اس انداز میں پیش کی جا رہی ہے کہ دنیا جہاد کو بھی دہشت گردی سمجھنے لگی ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا (تو کیا وہ کمیونسٹ ہوتے ہیں؟) مگر دہشت گردوں پر مذہب ، نظریات اور انتہا پسندی کے اثرات ضرور ہوتے ہیں۔

آخر میں ارباب اختیار سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ حقیقت میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کےخلاف ہیں تو ان انتہا پسندوں، دہشت گردوں، جنگجوئوں، عسکریت پسندوں، حریت پسندوں، فدائیوں یا جو بھی ہیں کہ جو بہرحال اکثریت میں نہیں ہیں ،کواس مرحلے پر کمزور نہ کیا گیا تو پھر ملک کمزور ہو گا۔ (جو پہلے ہی ناتواں ہے) اور ملک مزید کمزور ہوا تو افراتفری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور افراتفری پھیل گئی تو وہ کچھ ہو سکتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میںبھی نہیں ہو سکتا ۔ کچھ ریاستیں اور ممالک محض ایک ’’تجربہ‘‘ ہوتے ہیں کہ تجربہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔

شاید میرایہ شعر اس سارے ماحول کی عکاسی کرتا نظر آئے۔

آدھی صدی گزر گئی بالغ نہ ہو سکا

اے کشور حسیں! تری قسمت خراب ہے

تازہ ترین